ہنستے کھلکھلاتے بچوں سے بھری تیسرے درجے کی جماعت میں صرف ٹیچر کو معلوم ہے کہ تارا اسمگلنگ کا شکار ہوئی ہے۔" تارہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک حالیہ ٹیلی فون انٹرویو کے دوران تاکید کی کہ حفاظتی وجوہات کی بنا پر اس کا اصل نام استعمال نہ کیا جائے۔تارہ نے بتایا کہ ’’ اس شخص نے میری مدد کرنے کے بجائے مجھ سے یہ پوچھا کہ کیا گاؤں میں میری ہم عمر کوئی خاتون دوست ہے جو اس کے گھر کام کر سکے۔ میں نے انکار کر دیا۔ ‘‘
اسکول سے اس گھر میں واپسی کے بعد جہاں وہ رہتی اور کام کرتی تھی، تارا کبھی کبھار ٹیرس پر چلی جاتی تھی جب اس کی نگرانی نہیں ہوتی تھی ۔ تارا بتاتی ہیں کہ وہ بھارت کی ریاست جھاڑ کھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں گاڑیوں کو گزرتے دیکھتی اور خواہش کرتی کہ وہ اسے بھی ساتھ لے جائیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں ۔
بھارت کے منڈا قبیلے سے تعلق رکھنے والی تارا نے کہا کہ ’’میری عمر اس وقت آٹھ سال تھی جب جونہا نامی ایک خاتون ہمارے گاؤں آئی اور میری ماں سے کہا کہ اگر میں رانچی میں ان کے خاندان کے ساتھ رہنے جاؤں تو وہ میری تعلیم کے لیے فنڈز فراہم کریں گی۔میرے والدین غریب تھے اور ان کے تین بچے اور بھی تھے، اس لیے وہ آسانی سے راضی ہو گئے۔‘‘
انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی ) کے مطابق سال 2022 کے دوران ملک میں انسانی اسمگلنگ کے 6,500 سے زیادہ متاثرین کی شناخت کی گئی جن میں سے 60فیصد خواتین اور لڑکیاں تھیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ عام طور پر اس نوعیت کے واقعات کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی ۔
جھاڑکھنڈ کے کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل انوراگ گپتا نے وائس آف امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں ان سے اس مسئلے کے حوالے سے قبائلی لڑکیوں کو ہدف بنا کر کی جانے والی سمگلنگ پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ تاہم گپتا نے کہا کہ یہ جھاڑکھنڈ پولیس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ 2013 میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہر گمشدہ بچے کے کیس کو اغوا یا اسمگلنگ کی تحقیقات کرے۔
گپتا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہم نے جھاڑکھنڈ کے مختلف اضلاع میں انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹس بھی قائم کیے ہیں۔ہم انسانی اسمگلنگ کے معاملات کو اکثر ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ کو بھیجتے ہیں جو منی لانڈرنگ کے معاملات کودیکھنے اور اسمگلروں کی ملکیتی جائیدادوں کو ضبط کرنے کا ذمہ دار ہے۔‘‘
SEE ALSO: بھارتی سپریم کورٹ: 'منی پور واقعہ سے نظریں نہیں چرا سکتے'اسمگلنگ کے متاثرین
روچیرا گپتا انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی کارکن اور صحافی ہیں اور’’اپنے آپ وومن ورلڈ وائیڈ‘‘ نامی تنظیم کی بانی ہیں۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو لڑکیوں اور خواتین کو جنسی اسمگلنگ کے خلاف مزاحمت کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں اسمگلنگ کا شکار ہونے والی اکثریت مظلوم ذاتوں اور پسماندہ قبائلی برادریوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی ہے۔
گپتا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ا سمگلر ،قبائلی خواتین اور لڑکیوں کی ایک نوعیت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں جن میں خوراک کا عدم تحفظ، غیر مستحکم رہائش اور انہیں بہکانے، دھوکہ دینے اور مجبور کرنے کے لیے قانونی تحفظ کی کمی جیسے امور شامل ہیں ۔
2017 کے بھارت کے اقتصادی سروے اوراین سی آر بی کے مطابق جھاڑکھنڈ ، بھارت میں انسانی اسمگلروں کا نشانہ بننے والے اہم مقامات میں سے ایک ہے ۔ یہاں تقریباً نو ملین افراد پر مشتمل قبائلی آبادی مقیم ہےاور یہاں سے تارکین وطن کی بڑی تعداد بیرون ملک جاتی ہے۔انسانی اسمگلنگ کے بہت سے دوسرے متاثرین کی طرح سمگلنگ کا نشانہ بنتے وقت تارہ کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی اور ان کو اندازہ نہیں تھا کہ زندگی میں پہلی بار کسی شہر میں داخلے کے بعد ان کی صورتحال کیا ہوگی۔
ان کے والدین کو بتایا گیا کہ تارا کو ’’گھر کے کچھ کاموں میں مدد کرنا پڑے گی‘‘جو اس وقت ان کے لیے غیر معمولی بات نہ تھی۔’’اب تارہ کی عمر اٹھارہ برس ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ ’’ میں صبح 6 بجے اٹھتی، گھر کی صفائی کرتی، کپڑے دھوتی اور اسکول جانے سے پہلے اپنے مشترکہ خاندان کے تمام افراد کے لیے کھانا تیار کرتی ہوں۔‘‘
تارہ کہتی ہیں کہ وہ اسکول میں پڑھائی پر توجہ نہیں دے سکتی تھیں کیونکہ عملی طور پر انہیں بھوکا رکھا جاتا۔ سکول سے واپسی پر انہیں برتن دھونا ہوتے جبکہ کھانا ختم ہو چکا ہوتا۔ پھر انہیں رات کا کھانا بنانا ہوتا اورمالکان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی۔ وہ باتھ روم میں بند ہو کر روتیں کیونکہ اگر انہیں روتا دیکھ لیا جاتا تو ڈانٹ ڈپٹ ہوتی۔
جھاڑکھنڈ میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم آہان فاؤنڈیشن کی بانی رشمی تیواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نئی دہلی میں کام کرنے والے 60 فیصد گھریلو ملازمین کا تعلق جھاڑکھنڈ سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ان میں سے بہت سی ایسی خواتین اور لڑکیاں ہیں جو اسمگلنگ کا شکارہوئی ہیں۔ گھریلو غلامی اب ایک ایسا معمول ہے جسے جھاڑکھنڈ کے قبائل میں سماجی سطح پر تقریباً قبولیت حاصل ہے۔ اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کی ماؤں کو بھی اسی قسمت کا سامنا تھا۔‘‘
اپنوں سےملنے والا دھوکہ
ان میں سے بیشتر متاثرین کو ’’پلیسمنٹ ایجنسیوں‘‘ کے ذریعے شہروں میں لے جایا جاتا ہے جو منظم اسمگلنگ گروپوں کے لیے استعمال ہونے والی ایک اچھی اصطلاح ہے۔ بھارت میں انسانی اسمگلنگ سے بچانے کی کارروائیوں میں شامل ایک غیر سرکاری تنظیم نئی دہلی میں قائم ہے۔ شکتی واہنی نامی اس تنظیم کے شریک بانی رشی کانت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت کو قبائلی تارکین وطن جیسے کمزور گروہوں کی حفاظت اور ان کا استحصال کرنے والوں کے لیے ایک ’’پلیسمنٹ ایجنسی ایکٹ‘‘ کی اشد ضرورت ہے جو ان ذمے داروں کو قانونی طور پر جوابدہ بنائے ۔رشی کانت کہتے ہیں کہ ’’ یہ ’ایجنسیاں‘ بھارت کے دور دراز علاقوں کی قبائلی لڑکیوں کو ایک بہتر زندگی کے وعدے کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔ وہ ان لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں اورپھر انہیں کسی اجنبی کی رہائش گاہ پر بغیر کسی معاوضے کے گھریلو غلامی پر مجبور کیاجا تا ہے۔ بعض اوقات خودکشی ہی ان کا آخری سہارا بنتی ہے۔ ‘‘
نئی دہلی میں قائم ایک پلیسمنٹ ایجنسی شری رام پلیسمنٹ سروس کے ونود کمار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کمزور کمیونٹیز کی انسانی اسمگلنگ میں ملوث متعدد پلیسمنٹ ایجنسیوں کے کردار سے واقف ہیں۔کمار نے کہا، کہ ’’ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم اسمگلنگ کا شکار ہونے والے کسی فرد کو ملازمت نہیں دے رہے اس لئے ان کے خاندان کے کم از کم تین افراد سے رابطہ کرکے ملازمت دی جاتی ہے ۔ کمار نے بتایا کہ وہ اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکیوں کو ملازمت نہیں دیتے ۔ہم جنوبی دہلی کی ساکیت کالونی میں واقع ڈسٹرکٹ کورٹ میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔کانت اور تیواری نے کہا کہ قبائلی لڑکیوں اور خواتین کو عام طور پر ان کے اپنے قبائل کے دوسرے افراد اسمگل کرتے ہیں جو پہلے ہی شہروں میں آباد ہوچکے ہیں اورجن پر انہیں بھروسہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکثران متاثرین کے پاس اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں کسی کو بتانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہوتا ہے۔
ایکٹوسٹ روچیرا گپتا نے کہا کہ ان لوگوں کو مقامی زبان بھی نہیں آتی۔ وہ کبھی بھی کسی بڑے شہر میں نہیں گئےہوتے اور اکثر انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے اسمگلروں نے ان کے خاندانوں کو بھاری رقم ادا کی ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے استحصال کی اجازت دینی چاہیے تاکہ اپنے خاندانوں کے قرضے واپس کر سکیں ۔
قوانین رائج ہیں
بھوپال میں مقیم انڈین پولیس سروس کے افسر ویریندر مشرا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک دہائی قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ انسانی سمگلنگ پر اس حد تک مرکوز نہیں تھی جتنی اب ہے۔مشرا نے بتایا کہ ’’اس سے پہلے بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے جو تربیت دی جاتی تھی وہ صرف پولیس فورسز تک ہی محدود تھی جو براہ راست تحقیقات کرتی تھی تھی۔ لیکن اب فوجداری اور سماجی انصاف کے نظام میں اہلکاروں کی بڑی تعداد کو بھرپور تربیت دی جاتی ہے۔‘‘
شکتی واہنی کےرشی کانت نے کہا کہ ’’ انسانی اسمگلنگ کے معاملات میں جھارکھنڈ پولیس کی حالیہ مداخلتیں کامیاب رہی ہیں تاہم خاص طور پر ’خودکشی‘کے واقعات کی زیادہ گہرائی سے تفتیش کی جانی چاہیے اور اس کےلئے معاشی طور پر مراعات یافتہ لوگوں کے حق میں نہیں جھکنا چاہئے ۔‘‘
تارا گیارہ سال کی عمر میں موسم گرما کی تعطیلات کے دوران جھارکھنڈ میں اپنے گاؤں واپس آئی اور آہان فاؤنڈیشن میں بچوں کے حقوق سے متعلق آگاہی ورکشاپ نے انہیں نئی امید دلائی ہے۔
تارا نے ہچکچاہٹ کا شکار اپنے والدین کو اس بات پر راضی کیا ہے کہ اب وہ اسے گھر پر ہی رہنے دیں اور یوں ایک کڑے معمول کو توڑ دیا ہے۔ اب وہ آہان فاؤنڈیشن میں یوتھ فیلو ہیں ۔ وہ بالی ووڈ گلوکارہ شریا گھوشال سے محبت کرتی ہیں اور اپنی گلوکاری کے ذریعے اپنی روایتی ساہدری زبان کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔وہ حال ہی میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ میں اپنی کہانی پڑھنے والےہر شخص سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو کسی ایسی نئی جگہ نہ بھیجیں جس سے آپ بخوبی واقف نہ ہوں ۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی اور بھی تنہائی کا وہی تجربہ کرے جو میں نے کیا تھا۔‘‘
سارا عزیز۔ وائس آف امریکہ