جنگ کی قیمت معذوری ہو تو عمر بھر چکانی پڑتی ہے

ماریوپول میں محصورزخمی یوکرینی سپاہی۔ (فائل فوٹو)

ہر جنگ کی ایک قیمت ہوتی ہے جو جنگ میں شامل ملک، فوجی اور عام شہری سب برداشت کرتے ہیں۔ ملکوں کے لیےعلاقہ حاصل ہونا یا ہاتھ سے نکل جاناعارضی ہو سکتا ہے،مگر جو زندگیاں جنگ کی نذر ہو جاتی ہیں وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتیں۔ اور نہ ہی وہ اعضاء جو جنگ کی ہولناکیوں میں اچانک ہی وجود سے الگ ہو جاتے ہیں۔۔۔اور یوکرین میں یہی ہو رہا ہے۔

جنگ ابھی جاری ہے۔لوگ زخمی بھی ہو رہے ہیں اور جن لوگوں کے اعضاء ان کے جسم سے الگ کرنا لازم ہو گیا ہے ان کی کہانیاں ان کے زخموں، ان کے معذوری سے سمجھوتے کے سفر کی طرح ہی مختلف ہیں؛ ایک نیا جنم جس میں کچھ بھی دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوگا۔

اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑنا وہ جذبہ ہے جو زخمی ہونے کے باوجود فوجیوں کوتکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے اور خاص طور پر اس وقت ان کا ذہنی سہارا بنتا ہے جب ان کی زندگی بچانے کے لیے ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کر دیا جائے۔

یہ مرحلہ ان عام شہریوں کے لیے تو سخت صدمے کا باعث ہوتا ہے جو روزمرہ زندگی کے کاموں میں مصروف تھے اور اچانک جنگ میں ہونے والی بمباری انہیں ہاتھوں، پیروں سے محروم کر گئی۔ ان کی ذہنی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جن کے لیے جنگ ہی کچھ کم نہ تھی کہ اب زندگی بھر معذوری کے ساتھ رہنا ہوگا۔

یو کرین میں ایسے مرد و خواتین اور بچوں کے لیے یہ تیسرا مہینہ ہے جبکہ سفر ابھی شروع ہوا ہے۔

اپاہج ہونے والے یوکرینی فوجی

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایسے ہی کچھ لوگوں کا احوال بیان کیا ہے جو جنگ کی ہولناکی کا شکار ہوئے اور اب زندگی بھر اسی کے ساتھ جئیں گے۔

اولینا

ان میں اولینا وٹر ہیں جن کی بائیں ٹانگ دھماکے میں ضائع ہو گئی اور ان کا 14 سالہ بیٹا ایوان جس نے ابھی میوزک سیکھنا شروع کیا تھا ، اپنی جان سے گیا۔

ان کے شوہر ولودیمیر نے ایوان کو ہلاک ہونے والے ایک اور لڑکے کے ساتھ اپنے باغیچے میں گلاب کی جھاڑی کے نیچے دفن کر دیا کیونکہ جنگ زوروں پر تھی اور وہ قبرستان نہیں جا سکتے تھے.

14 مارچ کو کیف کے علاقے میں واقع اولینا کے گاؤں پر بم برسائے گئے۔ اس بمباری میں اولینا کے بیٹے سمیت چار لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ 45سالہ اولینا سمیت 20 لوگ زخمی ہوئے۔

بیٹے کے غم میں بے حال اولینا گھٹنے سے نیچے ایک ٹانگ سے محروم ہو گئی ہیں۔وہ روتی ہیں،" ہر روز ایک نیا زخم ہے۔ جانے اور کتنے درد لکھے ہیں مستقبل میں"۔

یانا اور نتاشا

11 سالہ یانا سٹیپاننکو پر آفت کھلے صاف آسمان سے آئی۔ 8 اپریل کو وہ اپنی ماں نتاشا اور اپنے جڑواں بھائی یاریک کے ساتھ کراما ٹورسک شہر سے باہر جانے کے لیے ٹرین سٹیشن پہنچی تھی۔

بھائی یاریک سامان کے ساتھ بیٹھ گیا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ چائے لینے چلی گئی۔ اتنے میں ایک میزائل آکر لگا اور دنیا اندھیر ہو گئی۔

یانا کی ماں نتاشا زمین پر گر گئیں۔۔وہ کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا، ان کی بیٹی یانا زخمی حالت میں تھی۔ اس کی آواز آئی،" ماں میں مر رہی ہوں۔"

دونوں ماں بیٹی کی بری حالت تھی۔ یانا کی دونوں ٹانگیں چلی گئیں جبکہ نتاشا گھٹنے سے اوپر بائیں ٹانگ سے محروم ہو گئیں۔یاریک محفوظ رہا اور اب وہ اپنی ماں اور بہن سے دوبارہ مل گیا ہے۔

ان کے والد کئی سال پہلے کینسر سے انتقال کر گئے تھے۔ سوتیلا باپ محاذ پر لڑنے گیا ہے۔۔۔یاریک ماں اور بہن کا اکیلا رکھوالا ہے جو ہسپتال کے برآمدوں میں کبھی وہیل چئیر اور کبھی کھانے کی تلاش میں دوڑ بھاگ رہا ہوتا ہے۔

اولینا روتی ہیں اور کہتی ہیں، " کبھی تو ایسا لگتا ہے گویا یہ سب ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ لیکن میں ایک ماں کی طرح اپنی بچی کی مدد نہیں کر سکتی۔ اسے گود میں نہیں لے سکتی۔۔۔اسے چلنے میں مدد نہیں دے سکتی۔ بس بستر پر پڑی اسے حوصلہ دے سکتی ہوں۔"

یانا اب بھی دوسرے بچوں کی طرح بھاگنا دوڑنا چاہتی ہے۔

ساشا

الیگذینڈر ہوروخوسکی کو سب ساشا کہتے ہیں۔ وہ تکلیف میں بھی ہیں اور غصے میں بھی۔ زخمی ہونے کے دو ہفتے بعد 4اپریل کو ان کی بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔

ساشا کو بائیں ران میں گولی ان کے علاقے میں دفاع پر مامور اپنے ہی کسی آدمی نے ماری تھی۔ وہ بابرووستیا میں اپنے گھر کے قریب بم شیلٹر سے نکل کر بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کی تصویریں بنا رہے تھے۔

ایک یوکرینی سپاہی

انہیں ہسپتال لیجانے سے پہلے ایک قریبی پولیس سٹیشن میں ان سے 90 منٹ تک پوچھ گچھ کی گئی۔ کئی روز بعد انہیں دارالحکومت کیف میں ایک اور ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی زندگی بچانے کے لیے ان کی ٹانگ کاٹ دی۔

38 سالہ ٹینس کے کھلاڑی کو ٹانگ کاٹے جانے کا علم اس وقت ہوا جب وہ ہوش میں آئے۔"کیوں؟؟ میری اجازت کے بغیر کیسے؟"۔۔ وہ چلاتے رہے مگر پھر دواؤں نے انہیں ایک مرتبہ پھر سلا دیا۔

وہ کہتے ہیں یہ ذہنی اذیت کچھ کم نہیں کہ وہ دشمن سے جنگ میں نہیں بلکہ اپنے ہی کسی کی گولی سے زخمی ہوئے۔

مگر ساشا کہتے ہیں،" اس کی کوئی توجیہ نہیں ہے مگر آپ کچھ تبدیل نہیں کر سکتے۔"

نستیا

چرنی ہیو کے ایک تہہ خانے میں جہاں نستیا کیوزک، ان کے والدین، ان کا بھائی اور 120 دیگر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے دو تین روز سے نہ بجلی تھی نہ پانی۔

تاریکی سے گھبرا کر وہ تھوڑی دیر کے لیے قریب ہی اپنے بھائی کے گھر چلی گئیں۔ واپس آرہی تھیں اور تہہ خانے کے قریب ہی تھیں کہ زور دار دھماکہ ہوا اور وہ زمین پر گر گئیں۔

آتے جاتے ہوش میں انہیں بس اپنے بھائی کا چہرہ نظر آیا جو تسلی دے رہا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔

ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر آخر ان کی دائیں ٹانگ گھٹنے سے نیچے کاٹنی پڑی جبکہ بائیں ٹانگ بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔

جرمن زبان کی استاد 21 سالہ نستیا اب آہستہ آہستہ صحتیاب ہو رہی ہیں مگر جرمن زبان ہی میں مزید تعلیم کا ان کا خواب شاید کبھی پورا نہ ہو۔

وہ کہتی ہیں،" میں نے کب سوچا تھا کہ ایسا ہو گا۔ مگر اب صبر کے سوا چارہ بھی تو نہیں۔"

اینٹن

لیڈیا گواجن کا اپنے 22 سالہ بیٹے جو کہ مشرقی یوکرین میں اگلے محاذ پر تعینات طبی عملے میں شامل تھا، کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر کسی نے انہیں خارکیف کے ایک ہسپتال کی ایک نرس کی فیس بک پوسٹ بھیجی جس میں نرس نے کہا تھا کہ ان کے ہسپتال میں اینٹن گواجن داخل ہیں۔ کیا کوئی انہیں جانتا ہے؟

وہ لیڈیا کا بیٹا تھا۔ انہوں نے نرس سے رابطہ کیا اور اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کیا۔ نرس اس کی حالت کی تفصیل بتانے سے کترانے لگی۔

لیڈیا کہتی ہیں پھر جب ان کا بیٹا کچھ ٹھیک ہوا تو اس نے انہیں فون کیا کہ وہ اس کے لیے کچھ کپڑے لے کر ہسپتال آجائیں اور چپل بھی لائیں لیکن پھر اس نے کہا اسے چپلوں کی ضرورت نہیں۔

وہ اب اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔وہ 27 مارچ کوشاید کسی کلسٹر بم کا نشانہ بنا۔وہ دونوں ٹانگوں اور بائیں ہاتھ سے محروم ہو گیا۔ اور دایاں ہاتھ بھی زخمی تھا۔

اینٹن کہتے ہیں وہ کئی روز تک کوما میں رہے۔ جب ہوش آیا تو وہ مسکرا رہے تھے گویا سب ٹھیک تھا۔ سب ٹھیک نہیں تھا مگر ان کے لیے یہی بہت تھا کہ وہ زندہ تھے۔

مگر پھر انہین ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ واہمے پریشان کرنے لگے۔ آخر ایک رضاکار سائیکالوجسٹ انہیں دیکھنے آیا۔ اس کی مدد سے اب انہیں واہمے اور ڈراؤنے خواب تو نہیں ستاتے مگر اپنی حالت دیکھ کر وہ سوچتے ضرور ہیں کہ کاش یہ سب ایک خواب ہوتا اور آنکھ کھلتے ہی سب پہلے جیسا ہو جاتا۔۔۔کاش !!