ایک خاموش سڑک پر اخروٹ کے درختوں کی قطاروں کے سائے میں ایک قبرستان میں چار لاشیں پڑی ہیں جن کا بظاہر کوئی وارث نہیں ہے۔ یہ سب اسی گاؤں میں روسی فوجیوں کا نشانہ بنے جو یوکرین کے دارالحکومت کیف سے باہر واقع ہے۔ ان کے عارضی تابوت ایک ہی قبر میں پڑے تھے۔
فوجیوں کے چلے جانے کےدو ہفتوں کے بعد اتوار کے روز رضاکاروں نےایک ایک کر کے انہیں قبر سے نکالا۔ کیف کے ارد گرد قصبوں اور دیہات میں یہ موسم بہار نئی شجرکاری اور پرانے درختوں کی دیکھ بھال کے لحاظ سے ایک خوفناک سال ہے۔
روسی قبضے کے دوران ان لاشوں کو جلد بازی میں دفن کر دیا گیا تھا، اب ان کو ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے نکالا جا رہا ہے۔ابھی تک نو سو سے زیادہ شہریوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
ایک مقامی شخص کا،جس نے ان کے تابوت فراہم کیے تھے، کہنا تھا کہ یہ جو چار لاشیں ہیں ان کو ایک ہی دن ایک ہی سڑک پر ہلاک کیا گیا۔وہ جب ان عارضی قبروں کے سامنے سے گزرا تو اس نے جھک کر قبرستان کی لوہے کی صلیبوں کو چوما۔
رضاکاروں نے پہلے بیلچے سے کھودنے کی کوشش کی ، پھر کھود کر نکالنے والے ٹریکٹر کو بلایا ۔جب وہ انتظار کر رہے تھے تو انہوں نے روسیوں کے ایک ماہ کے قبضے کے دوران لاشوں کو خفیہ طور پر دفن کرنے اور پھر انہیں نکالنے کے کام کی گنتی شروع کی ۔کھودنے والی گاڑی پہنچ گئی۔جلد ہی تازہ مٹی کی بو نے پتہ دیا کہ وہ یہاں دفن ہیں۔
ایک عورت ایرا سلیچنکو نے دفن ہوئےشخص کو دیکھ کرزور زور سے رونا شروع کر دیا۔،وہ اس کا شوہر تھا۔کسی نے اس کو نہیں بتایا تھا کہ اس کے شوہر کی لاش نکالی جا رہی ہے۔
ہلاک ہونے والے ایک اور شخص کی بیوی والیا نومینکو بھی آگئی۔ اس نے قبر میں جھانک کر دیکھا ،پھر ایرا چینکو کو گلے لگایا اس کو حوصلہ دیا کہ صبر کرو.یہ دونوں جوڑے ہمسائے تھے ۔جب روسی گاؤں چھوڑ رہے تھے تو آخری دن فوجیوں نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ، ویلوا کے شوہر نے دروازہ کھولا۔ فوجی اسے گیراج میں لے گئے اور کوئی وضاحت کیے بغیر اس کے سر میں گولی مار دی۔پھر فوجیوں نے چلانا شروع کر دیا کہ یہاں کوئی اور ہے۔
ایرا سلیچنکو کے شوہر ساشا نیڈولیزخو نے گولی کی آواز سنی تو اس نے سوچا کہ اگر کسی نے جواب نہ دیا تو فوجی گھروں کی تلاشی لیں گے۔اس نے دروازہ کھول دیا اور فوجیوں نے اس کو بھی گولی مار دی۔
ان آدمیوں کے تابوت کو دوسروں کے ساتھ باہر نکالا گیا اور پھر کھولا گیا۔کمبلوں میں لپٹی چار لاشوں کو تھیلوں میں رکھا گیا تھا ۔ہر تابوت پر لپٹی سفید چادر پر اس جگہ سرخ دھبے تھے ، جہاں ان لاشوں کا سر ہو گا۔
ایرا سلیچنکو دور کھڑی دیکھتی رہی اور سگریٹ پیتی رہی۔سب چلے گئے لیکن وہ خالی تابوت کے پاس کھڑی رہی۔
اس نے کہا کہ یہ ساری زمین سرخ ہے اور اس کو ٹھیک ہونے میں برسوں لگیں گے۔اسے پتہ تھا کہ اس کا شوہر یہاں دفن ہے۔اس کی عارضی تدفین کے نو روز بعد وہ مقامی رواج کے مطابق، مردے کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے قبرستان کی پکنک میزوں پر کافی اور بسکٹ لے کر آئی۔اس کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو۔
دوسری لاشیں ایک استاد اور ایک مقامی شخص کی تھیں جو تنہا رہتے تھے ۔اتوار کے روز ان کے لیے کوئی نہیں آیا۔
قبرستان سے ملحق ایک گھر میں چھیاسٹھ سالہ ویلوا وورونیٹس نے ،لکڑیوں سے گرم کیے ہوئے کمرے میں ،گھر میں اگائے ہوئے آلو پکائے،کیونکہ پانی ،بجلی اور گیس کی فراہمی منقطع تھی۔ایک چھوٹا ریڈیو کچھ دیر بولتا رہا پھر بند ہو گیا ،خبریں بہت مایوس کن تھیں۔
وورونیٹس کا کہناتھا کہ سارے روسی ایک جیسے نہیں ہوتے ایک اکیس سالہ نوجوان فوجی نے اسے بتایا کہ وہ لڑنا نہیں چاہتے۔حالانکہ وہ ان سے خوفزدہ تھی لیکن اپنی واحد گائے کا دودھ اس کو دیا۔ان حالات میں مجھے ان پر افسوس ہے لیکن اگر آپ کا ان سے برتاؤ اچھا ہو تو شاید وہ آپ کو ہلاک نہ کریں۔