|
امریکہ میں یومِ آزادی 1776 میں برطانیہ کی نو آبادیات میں شامل 13 ریاستوں کی آزادی اور متحدہ ریاست کے قیام کے فیصلے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
یوم آزادی کا جشن منانے سے متعلق امریکہ کے دوسرے صدر جان ایڈمز نے 1776 میں اپنی اہلیہ کو ایک خط میں لکھا تھا کہ یہ دن ’اس براعظم کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک‘ آتش بازی اور جشن کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔
چار جولائی کو امریکہ میں آزادی کا جشن دیکھا جائے تو جان ایڈمز درست ثابت ہوئے لیکن جان دراصل چار نہیں دو جولائی کی بات کر رہے تھے۔
امریکہ کا یومِ آزادی دو کے بجائے چار جولائی کیوں ہوا؟ اس کے بارے میں کئی دل چسپ تاریخی حقائق ملتے ہیں۔
یومِ آزادی چار جولائی کو کیوں؟
نوآبادیات سے آزادی حاصل کرنے والی 13 ریاستوں کے نمائندوں نے درحقیقت آزادی کے لیے اپنا ووٹ دو جولائی 1776 کو دیا تھا۔ لیکن انہوں ںے 'اعلانِ آزادی' کی توثیق اس کے دو روز بعد یعنی چار جولائی کو کی تھی۔
اعلانِ آزادی بنیادی طور پر وہ دستاویز تھی جس میں متحدہ ریاست کے قیام کے فیصلے کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔
اس لیے امریکہ میں بعض لوگوں کے مطابق آزادی کا جشن دو جولائی کو منانا چاہیے کیوں کہ یہی وہ دن ہے جب ان ریاستوں نے آزاد مملکت کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔
SEE ALSO: امریکہ کا یوم آزادی اور بہتر زندگی کی تلاشالبتہ بعض مورخین یہ اصرار بھی کرتے ہیں کہ اعلانِ آزادی کی نقول چوں کہ چار جولائی کو بڑے پیمانے پر عام کی گئی تھیں اسی لیے یہی دن آزادی کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔
جب یومِ آزادی یاد نہیں رہا
امریکہ کے اعلانِ آزادی سے متعلق 1997 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی کتاب ’امیرکن اسکرپچر: میکنگ دی ڈیکلیئرشن آف انڈی پینڈس‘ میں تاریخ دان پولن مائیر یومِ آزادی چار جولائی منانے کی ایک دل چسپ وجہ لکھتی ہیں۔
ان کے مطابق اعلانِ آزادی پر دستخط کے اگلے برس یعنی جولائی 1777 میں کانٹنینٹل کانگرس کے ارکان تقریباً بھول چکے تھے کہ انہیں برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیے ایک برس مکمل ہو چکا ہے۔
وہ لکھتی ہیں انہیں یہ بات تین جولائی کو یاد آئی جب بہت دیر ہو چکی تھی کیوں کہ دو جولائی کا دن کب کا گزر چکا تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ طے کیا کہ آزادی کا جشن اگلے روز یعنی چار جولائی کو منایا جائے گا۔
سرکاری چھٹی کب سے ہونے لگی؟
امریکہ میں یومِ آزادی کے جشن کی روایت کو 1812 میں برطانیہ کے خلاف جنگ کے بعد فروغ ملنا شروع ہوا۔ اس وقت بھی زیادہ تر تقریبات چار جولائی ہی کو منعقد کی جاتی تھیں۔
تاہم امریکہ کے دوسرے صدر اور اس کے بانیوں میں شامل جان ایڈمز اس وقت بھی یہ اصرار کرتے تھے کہ آزادی کی خوشیاں دو جولائی کو منانی چاہئیں۔
مؤرخین کے مطابق انہوں نے اپنی پوری زندگی چار جولائی کو منعقد ہونے والی یومِ آزادی کی کسی تقریب کا دعوت نامہ مبینہ طور پر قبول نہیں کیا۔
اتفاق یہ ہے کہ امریکہ کے بانیوں میں شامل دو صدور کا انتقال اعلانِ آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر ایک ہی دن کو ہوا۔ جان ایڈمز اور تھامس جیفرسن دونوں ہی چار جولائی 1826 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔
یومِ آزادی کی درست تاریخ پر اگرچہ اختلاف رہا تاہم امریکی کانگریس نے 1870 میں چار جولائی کو یومِ آزادی کی سرکاری تعطیل کرنے کا اعلان کیا۔
جشن کے بدلتے رنگ
جولائی 1776 میں جب امریکہ آزاد ہوا تو اس کی کُل آبادی 25 لاکھ افراد پر مشتمل تھی جو اب 33 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ آج امریکی آتش بازی سمیت مختلف انداز سے یومِ آزادی مناتے ہیں۔
امریکہ کے یومِ آزادی پر پریڈز، تفریحی پروگرامز، پکنک، تقاریر اور آتش بازی کے مظاہرے رفتہ رفتہ اس جشن کی روایات بنتے گئے۔
اگرچہ گزشتہ برسوں میں کرونا وائرس کی وبا کے باعث اس جشن کی رونقیں ماند پڑ گئی تھیں لیکن وبا کا پھیلاؤ محدود ہونے کے بعد اس دن کے جشن کی روایتی رونقیں واپس لوٹ رہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی یومِ آزادی کے لیے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صدر اور خاتونِ اول شریک ہوتے ہیں۔ اس برس بھی صدر بائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن وائٹ ہاؤس میں امریکی فیملیز کو عشائیہ دیں گے۔
روایتی رنگوں کے ساتھ ساتھ اب یومِ آزادی کی تقریبات میں کچھ منفرد ٹرینڈز بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔
ریاست پنسلوینیا کے فلاڈلفیا شہر میں 16 دن تک جاری رہنے والے جشنِ آزدی کے پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔ ’امریکہ کی سالگرہ اس کی جائے پیدائش پر‘ کے عنوان سے ہونے والی ان تقریبات میں آتش بازی، موسیقی اور پکوانوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا۔
ادھر ڈیلاویئر کے ایک چھوٹے سے گاؤں لیوس میں اپنے ساحلی ورثے کو اجاگر کرنے کے لیے ’ڈے بوٹ پریڈ‘ منعقد کی جا رہی ہے۔
ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں فلموں کے شائقین کے لیے ہالی ووڈ فور ایور سیمیٹری میں کلاسیک فلمیں دکھائی جائیں گی۔
آزادی سے آزادی کا سفر
چار جولائی کو 13 ریاستوں نے جس آزاد مملکت کے قیام کا فیصلہ کیا تھا وہ آزادی کے سفر کا اہم سنگ میل اور نقطۂ آغاز تو تھا لیکن مکمل آزادی کے لیے خصوصاً نو آبادیاتی دور میں غلام رہنے والے سیاہ فام امریکیوں کو طویل جدوجہد کرنا پڑی۔
امریکہ کے بانیوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی لیکن اس نو قائم شدہ ریاست میں سیاہ فام افراد کی غلامی ختم نہیں کی گئی تھی۔
نو آبادیات کے لوگ جو اپنے لیے پسند کرتے تھے وہ بظاہر اپنے غلام رہنے والے افراد کے لیے آزادی کے ویسے استحقاق پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اگرچہ آزادی کے اعلان میں یہ بات شامل تھی کہ خالق نے تمام انسانوں کو مساوی بنایا ہے اور انہیں زندہ رہنے، آزادی اور خوشی کے حصول کے یکساں حقوق بھی دیے ہیں جو ان سے کوئی نہیں لے سکتا۔
سن 1865 میں آئین میں ہونے والی تیرہویں ترمیم کے بعد امریکہ میں غلامی کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ کا آئین اور اس میں ہونے والی مختلف ترامیم میں مساوی حقوق کے لیے کئی اہم تاریخی قانون سازیاں بھی ہوئی ہیں۔ تاہم امریکہ میں 248 برس بعد بھی یکساں آزادی اور حقوق کا یہ سفر جاری ہے۔