بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ضلع ترقیاتی کونسلز کے عام انتخابات، پنچایتوں اور شہری بلدیاتی اداروں کے ضمنی چناوٴ کے فوراً بعد پولیس نے گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔
آٹھ مراحل میں کرائے گئے یہ انتخابات گزشتہ ہفتے مکمل ہوئے تھے اور ان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے قائم کیے گئے اتحاد ٰپیپلز الائنس فار گُپکار ڈیکلریشن' (پی اے جی ڈی) نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔
اس اتحاد کی سب سے بڑی حریف جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور یہ سات جماعتوں پر مشتمل پی اے جی ڈی کی طرف سے مجموعی طور پر جیتی گئی 110 کے مقابلے میں 75 نشستیں حاصل کرکے سب سے بڑی واحد پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے کہا ہے کہ لوگوں کی بھاری اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دے کر بھارت کی حکومت کے اُس غیر آئینی فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جس کے تحت اس نے گزشتہ سال کے اگست میں کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تھی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دیا تھا۔
چھ دن میں 100 کے قریب سیاسی کارکن نظر بند
پولیس نے 22 دسمبر کو ووٹ شماری سے ایک دن پہلے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿پی ڈی پی﴾ کے تین رہنماؤں اور سابق ممبران قانون سازی اسمبلی نعیم اختر، محمد سرتاج مدنی اور منصور حسین سمیت 25 کے قریب سیاسی کارکنوں کو امتناعی حراست میں لیا تھا۔
گزشتہ پانچ دن کے دوران مزید تقریباً 75 افراد کو گرفتار یا امتناعی حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں مین اسٹریم یا بھارت کے قومی دھارے میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں کے اراکین بھی شامل ہیں۔
حراست میں لیے گئے چند ایک افراد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سفارش پر سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ ﴿پی ایس اے﴾ کے تحت نظر بند کرنے کے احکامات جاری کر رہی ہے ۔
جموں و کشمیر میں 1975 سے نافذ اس سخت گیر قانون کے تحت کسی بھی شخص کو عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔
بیالیس سال قبل اس قانون کو جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ضروری قرار دے کر لاگو کیا گیا تھا۔ لیکن سب ہی حکومتوں نے اسے سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے کھل کر استعمال کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ برس 5 اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے متنازع اقدام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں حراست میں لیے گئے کئی لیڈروں اور کارکنوں میں سے کئی ایک کو بھی، جن میں سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں، بعد میں اسی قانون کے تحت کئی کئی ماہ تک قید میں رکھا گیا تھا۔
امن عامہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کا خدشہ
حکام کا کہنا ہے کہ تازہ گرفتاریاں یا نظر بندیاں جموں و کشمیر میں امن و امان میں رخنہ ڈالنے کے خدشات کے پیش نظر عمل میں لائی گئی ہیں۔
حکومت نے دو اضلاع کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کے سب ہی 18 اضلاع میں تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ سروسز پر 17 ماہ سے عائد پابندی کی مدت بھی مزید دو ہفتوں کی توسیع کر دی ہے۔
حکام کے مطابق حالیہ انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے۔ یہ عمل علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ پُر تشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اس لیے تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کا امکان موجود ہے۔
حزبِ اختلاف کی تنقید
حزبِ اختلاف نے ان اقدامات کو مفروضے قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور نظر بندیوں کے پیچھے بی جے پی اور اس کی مقامی حلیف جماعت 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' ہے۔ جو نو منتخب ممبران کی خرید و فروخت کو آسان بنانے کے لیے ایک قدم ہے اور مزاحمت کو کمزور بنانے کی کوشش ہے۔
پی اے جی ڈی نے، جس کی قیادت سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کر رہے ہیں، یہ الزام بھی لگایا ہے کہ پولیس کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنز منوج سنہا کی قیادت میں کام کرنے والی انتظامیہ بھی اتحاد اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے کامیاب آزاد امیدواروں کو راغب کرنے کی اس مہم میں بی جے پی اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی کی خوب مدد کر رہے ہیں۔
پی اے جی ڈی کے رہنما عمر عبد اللہ نے ہفتے کو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ نریندر مودی حکومت اور ان کی جماعت بی جے پی پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کی انتخابات میں کامیابی سے خائف ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کرنے کے بجائے اسے کمزور اور مجروح کرنے پر تُلی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی مقصد کے حصول اور ہارس ٹریڈنگ کو ممکن بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر الزام تراشیوں اور ہراساں کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیرِ اعظم نریندر مودی ضلع ترقیاتی کونسلوں کے لیے انتخابات کرانے اور ان میں لوگوں کی شرکت کے حوالے سے خوب ڈینگیں مار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ لیکن دوسری جانب جمہوریت کو بدنام اور بے اعتماد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے پریس کانفرنس کے دوراں ایک ایسی مبینہ فون کال کی ریکارڈنگ سنائی جس میں اپوزیشن اتحاد میں شامل نیشنل کانفرنس کی نو منتخب رکنِ ضلع ترقیاتی کونسل کے شوہر کو کسی تیسرے شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنی بیوی کو جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے لیڈر سید الطاف بخاری کے اس وعدے کے بعد اس میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا ہے کہ اُس کے بھائی کو تین دن کے اندر اندر جیل سے رہا کرایا جائے گا۔
منتخب امیدواروں کو دھمکیاں دینے کا الزام
عمر عبد اللہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے کامیاب قرار دیے گئے امیدواروں کو جموں و کشمیر اپنی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس کے اشارے پر کیا جا رہا ہے لیکن سب جانتے ہیں اپنی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ غالباً یہ ان انتخابات میں دیے گئے فیصلوں کو بدلنے کی خاطر کیا جا رہا ہے۔
'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' کی الزامات کی تردید
'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اور کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کی دوسری اکائیوں کے اراکین اپنی مرضی سے اس میں شامل ہو رہے ہیں۔
پارٹی کے ایک رہنما اور سرینگر کے رئیسِ بلدیہ جنید عظیم متو نے عمر عبد اللہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم قرار دے کر اس میں اپنے ضمیر کی آواز پر شامل ہونے والے سیاسی کارکنوں اور دوسرے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضلع ترقیاتی کونسل کے اُن منتخب ممبران کو ڈرانے دھمکانے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے جو اپنی مرضی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ذلیل کرنے کا یہ خود غرضی پر مبنی اور ایک نازیبا عمل ہے۔
جموں و کشمیر کی تاریخ میں نئے سنہری باب کا اضافہ: مودی
اس دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ضلع ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات نے جموں و کشمیر میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کے بقول صاف شفاف انتخابات کا انعقاد اور لوگوں کی اس میں پُر جوش شرکت بھارت کے لیے فخر کی گھڑی ہے۔
ہفتے کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ایک وفاقی فلاحی اسکیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کو براہِ راست وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقہ بنانے کے ایک سال کے اندر اندر یہاں تین سطحی پنچایتی انتخابات بھی کرائے گئے۔
کانگریس پارٹی کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ مجھے جمہوریت کے درس دیا جا رہا ہے۔