آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان رواں برس کے اختتام تک آزاد تجارت کے معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی آسٹریلیاکے دورے پر ہیں جہاں بدھ کو سڈنی میں انہوں نے آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البنیز سے ملاقات کی۔
آسٹریلوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کے بھارتی ہم منصب توقع ہےکہ اس برس کے اختتام تک دونوں ملکوں میں آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل ہو جائے گی۔
بھارت آسٹریلیا کا چھٹا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال 31 ارب امریکی ڈالرز ( 46 ارب 50 کروڑ آسٹریلین ڈالر) کی تجارت ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کا اس وقت سب سے بڑا تجارتی شراکت دار چین ہے۔ البتہ حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے کیوں کہ بیجنگ نے بعض آسٹریلوی مصنوعات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
البنیز کا مزید کہنا تھا کہ جامع اقتصادی تعاون کا معاہدہ گزشتہ دسمبر میں نافذ ہونے والے دو طرفہ تجارتی معاہدے کے دائرۂ کار میں اضافہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت 2011 میں شروع ہوئی تھی۔
چین کے مقابلے میں توازن کے وعدے کےتناظر میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں سیاسی مخالفین اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کے بارے میں سوالات کو آسٹریلیا نے نظر انداز کر دیا ہے۔ آسٹریلیا کے مطابق یہ بھارت کے داخلی مسائل ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم کا استقبال
بھارت کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کے بہت سے اخبارات نے یہ سرخی لگائی کہ آسٹریلیا میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا راک اسٹار کی طرح استقبال کیا گیا۔
وزیرِ اعظم انتھونی البنیز نے ایرینا میں بھارتی باشندوں کے ہجوم کے نریندر مودی کے والہانہ استقبال کا موازنہ اسی مقام پر امریکی راک اسٹار بروس اسپرنگسٹن کے کنسرٹ سے کیا تھا۔
نریندر مودی کے آسٹریلیا کے دوسرے دورے کے دوران منگل کو سڈنی کے ایک اسٹیڈیم میں لگ بھگ 20 ہزار حاضرین نے ان کا خیرمقدم کیا ۔ بہت سے لوگ "مودی، مودی" کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم مودی نے ہندی میں تقریر میں اپنے آسٹریلوی ہم منصب اور آسٹریلیا میں کرکٹ کے تمام شائقین کو اس برس بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ" آپ کو اس موقع پر دیوالی کی چمک دمک اور دھوم دھام بھی دیکھنے کو ملے گی۔"
مودی نے یہ بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اگلے پانچ برس میں دوگنی ہو جائے گی۔
بھارتی باشندے آسٹریلیا کی آبادی کا تین فی صد ہیں لیکن یہ ملک کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی نسلی اقلیت ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کا معاملہ
کینبرا میں گرینز پارٹی کے سینیٹرز کے گروپ نے انتھونی البنیز پر زور دیا ہے کہ وہ مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران بھارت میں اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھائیں ۔
سینیٹرز کے اس گروپ کے مطابق حقوق کی مہم چلانے والے درجنوں افراد بھارت بھر میں سیاسی محرکات پر مبنی مقدمات کے بعد جیلوں میں ہیں۔بھارتی حکومت کے عہدیداروں نے ابھی تک ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
SEE ALSO: امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کے باہر ایک ہفتے میں تیسرا بم دھماکہ؛ کیا خالصتان تحریک سر اٹھا رہی ہے؟ایڈمرلٹی ہاؤس میں وزیر اعظم انتھونی البنیز کے ساتھ اپنی سربراہی ملاقات کے بعد بھارتی رہنما نے آسٹریلیا میں ہندو مندروں پر حالیہ حملوں اور توڑ پھوڑ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ توڑ پھوڑ مبینہ طور پر سکھ علیحدگی پسندوں نے کی تھی ۔
مودی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہم ایسے کسی بھی عناصر کو قبول نہیں کریں گے جو ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان دوستانہ اور گرم جوشی کے تعلقات کو اپنے عمل یا خیالات سے نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
مودی نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں وزرائے اعظم نے ماضی میں علیحدگی پسند عناصر کی سرگرمیوں پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔
ایک سرکاری ترجمان کے مطابق مودی نے کہا "وزیر اعظم البنیز نے آج مجھے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔"
مبصرین نے سڈنی کی ریلی میں مسلمان اور سکھ سرگرم کارکنوں کی طرف سے مودی کے خلاف احتجاج کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا۔
بھارت اور آسٹریلیا کے تجارتی تعلقات میں اضافے کی وجوہات
کوئنز لینڈ کی گریفتھ یونیورسٹی میں گریفتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے قائم مقام ڈائریکٹر ایان ہال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہند-بحرالکاہل کے خطے میں جغرافیائی سیاسی تناؤ نے آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بڑھادیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوچیز ان تعلقا ت میں تیزی لائی ہے اور واقعی تعلقات کو متحرک کیا ہے وہ ہے چین کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات۔
ان کے بقول خطے میں طاقت اور اثر و رسوخ کے توازن کو یقینی بنانے کے لیے اب مل کر کام کرنا , دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو محرک کرنے والی مرکزی طاقت بن گیا ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔