بھارت: جنسی زیادتی پر بننے والی دستاویزی فلم پر پابندی

فائل

جنسی زیادتی کے ایک مجرم کے فلم میں شامل متنازع انٹرویو پر بعض حلقوں کے احتجاج کے بعد پولیس نے بھارتی ٹی وی چینل کو دستاویزی فلم میں نشر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

بھارت میں حکام نے دو سال قبل دہلی میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے پر بننے والی دستاویزی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی ہے۔

ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم "بھارت کی بیٹی" معاصر نشریاتی ادارے 'بی بی سی فور' پر آٹھ مارچ کو نشر کی جائے گی۔

ایک بھارتی ٹی وی چینل کو بھی مذکورہ فلم نشر کرنی تھی لیکن واقعے کے ایک شریک مجرم کے فلم میں شامل متنازع انٹرویو پر بعض حلقوں کے احتجاج کے بعد پولیس نے ٹی وی چینل کو اسے نشر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پولیس حکام نے کہا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ فلم کو نشر کرنے سے گریز کریں کیوں کہ اس کے نتیجے میں "خوف اور کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کا عوامی ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔"

دستاویزی فلم دسمبر 2012ء میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک چلتی بس میں میڈیکل کی ایک 23 سالہ طالبہ کے ساتھ چھ افراد کی اجتماعی زیادتی اور اس کے بہیمانہ قتل کے واقعے پر بنائی گئی ہے۔

فلم میں مقتولہ جیوتی سنگھ کے والدین، وکلا اور ڈاکٹر کے انٹرویوز بھی شامل ہیں لیکن احتجاج کا سبب فلم میں شامل زیادتی کے واقعے میں ملوث ایک مجرم کا بیان بنا ہے۔

فلم ساز لیزلی اڈون کے ساتھ جیل میں گفتگو کرتے ہوئے مکیش سنگھ نامی مجرم نے کہا ہے کہ جنسی زیادتی کے کسی بھی واقعے کی ذمہ داری مجرم مرد سے زیادہ متاثرہ عورت پر عائد ہوتی ہے۔

مکیش سنگھ ان چھ مجرموں میں شامل ہے جنہیں بھارت کی ایک عدالت نے طالبہ سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی ہے۔

مذکورہ شخص نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہے اور اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی سزا کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

فلم میں شامل اپنے انٹرویو میں مکیش سنگھ نے کہا ہے کہ اگر مقتولہ اس رات ملزمان کی جانب سے جنسی زیادتی کی کوشش کے خلاف مزاحمت نہ کرتی تو وہ اس پر جان لیوا تشدد نہ کرتے اور اس کی زندگی بچ سکتی تھی۔

تہاڑ جیل میں فلم ساز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مجرم نے مزید کہا تھا کہ اگر رات میں گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کےساتھ کوئی جنسی زیادتی کرتا ہے تو اس کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔

مکیش سنگھ کے اس انٹرویو کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد بھارت میں حقوقِ نسواں کی تنظیموں اور کئی حلقوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور فلم کی نمائش پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے الزام عائد کیا ہے کہ دستاویزی فلم بنانے والوں نے ان شرائط کی خلاف ورزی کی ہے جن کی بنیاد پر انہیں جیل میں قید مجرم کے ساتھ انٹرویو کی اجازت دی گئی تھی۔

اپنے ایک بیان میں وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ دستاویزی فلم میں شامل مجرم کا انٹرویو انتہائی اشتعال انگیز اور ہتک آمیز ہے۔

انٹرویو پر تنقید کرنے والے حلقوں نے ایک غیر ملکی فلم ساز کو جیل میں قید مکیش سنگھ اور دیگر مجرموں تک رسائی دینے پر بھی بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

فلم ساز لیزلی اڈون نے ، جو خود بھی ماضی میں جنسی زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں، اپنی فلم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے مجرم کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے حکام سے منظوری لی تھی۔

انہوں نے فلم کی نمائش پر بھارت میں پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرم کے انٹرویو سے بھارتی معاشرے کے اس حلقے کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے جو خواتین کے خلاف حملوں کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتا۔