بھارت میں دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر کی بٹلہ ہاؤس کالونی سے گرفتار مبینہ دہشت گرد کے شامی خاتون سے رابطے کا انکشاف ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بٹلہ ہاؤس کالونی سے گرفتار شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) سے وابستہ مبینہ دہشت گرد اور 22 سالہ طالب علم محسن احمد نے ایک شامی خاتون کی ہدایت پرکرپٹو کرنسی کی شکل میں چار لاکھ روپے اکٹھے کرکےعراق اور شام بھیجے۔
رپورٹس میں قومی تحقیقاتی ادارے (اے این آئی) کے ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا ہےکہ محسن نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اسے مذکورہ شامی خاتون سے محبت ہوئی اور خاتون نے اسے کہا کہ وہ چندہ اکٹھا کرکے داعش کو بھیجے۔
محسن کا تعلق پٹنہ سے ہے اور وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بی ٹیک کر رہا ہے۔ اس سے قبل محسن نے کوٹہ راجستھان سے کوچنگ لی تھی۔
پولیس نے گرفتار مبینہ دہشت گرد کی نشاندہی پر دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا تھا مگر انہیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
SEE ALSO: الظواہری کی ہلاکت، بھارت میں القاعدہ کے مبینہ حامیوں کے خلاف کارروائیمیڈیا رپورٹس کے مطابق محسن نے بھارت، مالدیپ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے ایک کرپٹو پلیٹ فارم کے اکاؤنٹ میں رقم منگوائی۔
این آئی اے نے محسن پر الزام عائد کیا ہے کہ'' وہ داعش کا سرگرم کارکن ہے۔ وہ آن لائن دہشت گردی پھیلانے میں مصروف تھا اور گزشتہ تین برسوں سے عراق اورشام کے دہشت گردوں سے فیس بک اور ٹیلی گرام کے توسط سے رابطے میں تھا۔اور اسے مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع ملنے کے بعد آٹھ اگست کو گرفتار کیا گیا۔''
البتہ محسن کے اہل خانہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ محسن کے والدین اور دیگر رشتے داروں کا مؤقف ہے کہ محسن کے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے یا کسی شامی خاتون سے محبت کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
اہل خانہ کے مطابق محسن ایک شرمیلا نوجوان ہے اور وہ ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے این آئی اے کے اس الزام کو بھی غلط قرار دیا کہ محسن دہشت گردوں سے آن لائن رابطے میں تھااور اس میں انتہا پسند خیالات پیدا ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس وقت ہمیں پتا چلتا جب وہ ہمارے ساتھ تھا۔
دوسری جانب دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد کو قانونی مدد فراہم کرنے والی تنظیم'رہائی منچ' کا کہنا ہے کہ اس قسم کی گرفتاریاں بغیر کسی ثبوت کے کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے مقدمات عدالتوں سے خارج کر دیے جاتے ہیں۔
رہائی منچ کے جنرل سیکریٹری راجیو یادو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیے جانے والوں میں سے بہت کم کو سزا ہوئی ہے۔
ان کے بقول کسی خاتون سے متاثر ہو کر دہشت گردی کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا الزام مضحکہ خیز ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو واقعیکسی نظریے سے متاثر ہو کر ایسی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ عام طور پر کسی خاتون کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
ان کے مطابق ایسا پہلے کبھی نہیں سنا، البتہ فوجیوں کے 'ہنی ٹریپ' کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔
راجیو یادو کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا رپورٹس سچ ہیں تو ان کے نزدیک بھارت میں داعش سے وابستہ کسی شخص کے 'ہنی ٹریپ' کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں سیاسی رجحانات کے پیشِ نظر ایجنسیوں کی جانب سے وقتاًفوقتاً دہشت گرد گروہوں کے نام بدلے جاتے رہے ہیں۔ کبھی مسلمان نوجوانوں کے 'اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا'(سیمی) میں شامل ہونے کی بات کی گئی تو کبھی 'حرکت الجہاد اسلامی' (ہوجی) کا نام لیا گیا۔ اور کبھی یہ کہا گیا کہ نوجوان نے اپنی دہشت گرد تنظیم 'انڈین مجاہدین' بنالی ہے۔ اسی طرح کبھی 'القاعدہ' کا نام لیا گیا اور اب 'داعش' کا نام لیا جا رہا ہے۔
ملک کے خفیہ اداروں کی جانب سے وقفے وقفے سے دہشت گردی کے الزام میں لوگوں کو گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جانتا پارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنماؤں کی جانب سے بھی مسلمان نوجوانوں کے انتہا پسند خیالات سے متاثر ہونے کی بات کی جاتی ہے۔
البتہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ اپنے متعدد بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کا القاعدہ یا داعش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ریاستِ آسام کے وزیرِاعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے چار اگست کو گوہاٹی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ آسام ''جہادی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔''
ان کے مطابق بنگلہ دیش سے سرگرم ''دہشت گرد گروپ انصار السلام'' سے وابستہ پانچ ماڈیوں آسام میں ہیں۔
البتہ راجیو یادو کے مطابق ممکن ہے کہ بھارت میں کچھ لوگ عالمی رجحانات سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی طرف مائل ہوئے ہوں۔ لیکن ایسے معاملات میں بہت کم لوگوں کو سزا ہوئی ہے کیوں کہ ایجنسیاں عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کر پاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نو اگست کو اترپردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اعظم گڑھ سے جس 25 سالہ نوجوان شہاب الدین اعظمی کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا۔نوجوان کے پاس سے پیچ کش، پلاس، اسکریو ڈرائیور اور وائرنگ کے سامان برآمد ہونے کا کہا گیا۔ البتہ یہ سامان تو یومیہ استعمال کا ہے جو ہر گھر میں ہوتا ہے۔
اے ٹی ایس کا الزام ہے کہ اعظم گڑھ کے شہاب الدین کا تعلق داعش سے ہے اور وہ 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزاد کے موقع پر دہشت گردی کی کارروائی کرنے اور ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنماؤں پر حملے کی سازش کر رہا تھا۔
SEE ALSO: مسلمانوں کی تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' پر دہشت گردی کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟
تاہم شہاب الدین کے اہل خانہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
ادھر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد کو قانونی امداد فراہم کرنے والی جمعیت العلما ہند بھی اس قسم کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ دہشت گردی کی طرف مائل ہوئے ہوں لیکن پولیس اور ایجنسیاں عدالتوں میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر پاتیں۔
راجیو یادو کے مطابق ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ پولیس کی طرف سے ملزموں سے کہا گیا کہ وہ اگر اپنے جرم کا اعتراف کر لیں تو انہیں معاف کرکے عدالت سے رہا کرا دیا جائے گا۔
جمعیت العلمائے ہند کی جانب سے قانونی لڑائی لڑنے والے بعض وکلا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بعض ملزمان نے پولیس کی اس شرط کو مان کر جرم کا اعتراف کیا اور عدالتوں سے بری ہوگئے۔