بھارت کی صدارت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا اور ملک کی مخدوش صورتِ حال پر غور کیا گیا۔
اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے اپنے بیان میں کہا کہ پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر بھارت کو شدید تشویش ہے۔ افغانستان میں پر تشدد واقعات میں کمی کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کا مستقبل اس کا ماضی نہیں بن سکتا اور نہ ہی گھڑی کی سوئی کو پیچھے لے جایا جا سکتا۔
تری مورتی کا مزید کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ اقوامِ متحدہ، بالخصوص سلامتی کونسل صورتِ حال کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے تاکہ تشدد کے فوری خاتمے اور مستقل اور جامع جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے کم کوئی بھی بات علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بنی رہے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا اہم ہوگا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے یا اس کے لیے خطرہ بننے کے لیے استعمال کیے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گرد گروہوں کی مدد کرنے والوں کو جواب دہ ٹھیرایا جائے۔
ان کے مطابق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ سے واضح ہے کہ شہریوں کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ کے ریکارڈ واقعات ہو رہے ہیں۔ مذہبی اور نسلی اقلیتوں، طالبات، افغان سیکیورٹی فورسز، علما، اہم ذمہ داری نبھانے والی خواتین، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور نوجوانوں کو ہدف بنا کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے ‘پلٹزر’ ایوارڈ یافتہ بھارتی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی ہلاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے احاطے کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ افغانستان کے وزیرِ دفاع کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا۔ رپورٹنگ کے دوران ایک بھارتی صحافی کو ہلاک کیا گیا۔
ٹی ایس تری مورتی نے مزید کہا کہ افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے خطے میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو فوری طور پر تباہ کیا جائے اور دہشت گردوں کی سپلائی چین توڑی جائے۔
ان کے مطابق دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مستقل نمائندے غلام اسحٰق زئی نے اجلاس کے دوران الزام لگایا کہ طالبان کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔ پاکستان سے طالبان کی ہر قسم کی اعانت کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں چینی باشندوں پر حملے کی مذمت
سلامتی کونسل نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں رواں سال 14 جولائی کو ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس حملے میں نو چینی شہری اور تین پاکستانی ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
سلامتی کونسل کے اراکین نے اس حملے کے ذمہ داروں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھیرانے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔
اراکین نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں اپنی ذمہ داری نبھائیں اور اس معاملے میں پاکستان اور چین کی حکومتوں اور تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ سرگرم تعاون کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سلامتی کونسل کے صدر ٹی ایس تری مورتی کے نام سے جاری ہونے والے اس بیان میں متاثرین کے لواحقین، چین اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان نے الزامات مسترد کر دیے
دریں اثنا پاکستان نے افغانستان کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان نے جمعے کو افغان جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں اور سرحد پار سے طالبان جنگجوؤں کی نقل و حرکت کے بارے میں الزامات کو ’محض خیالی تصورات‘ قرار ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگا دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے چند گھنٹوں کے بعد اقوام متحدہ میں پریس کانفرنس میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اگست کے لیے کونسل کے صدر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
منیر اکرم کا کہنا تھا کہ بھارت کی صدارت میں 15 رکنی سلامتی کونسل نے پڑوسی ملک کے طور پر پاکستان کو خطاب کرنے کا موقع دینے سے انکار کیا۔
SEE ALSO: بھارت کی صدارت میں افغانستان پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس، توقعات کیا ہیں؟منیر اکرم نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے شرکت کی باضابطہ درخواست کی تھی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔
ان کے بقول ظاہر ہے کہ پاکستان کو بھارت کی صدارت سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان کا مکمل بیان سیکیورٹی کونسل کے اراکین کو دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرستان اور دیگر علاقوں میں پاکستان کی فوج کی مؤثر کارروائیوں کے بعد دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے باقی نہیں رہے۔ سرحد پر باڑ لگانے کا کام 97 فی صد مکمل ہو گیا ہے تاکہ سرحد پار نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
منیر اکرم نے علاقائی امن ’بگاڑنے والوں‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ان کے بقول افغان امن عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے مفادات کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے اندر اور باہر دونوں کی سازشوں کے خلاف خبردار کیا۔
انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش کے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان افغان سر زمین سے حملوں کا مسلسل شکار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستانی سفیر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مسلسل افغانستان میں پائیدار امن اور سلامتی کی بحالی کا واحد راستہ سیاسی حل پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے پاکستان نے بین الاقوامی اتفاق رائے کا خیرمقدم کیا ہے جو ابھر کر سامنے آیا ہے کہ امن اور استحکام کا بہترین ذریعہ تنازعے کے فریقین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل ہے۔
ان کے مطابق پاکستان نے اس طرح کے سیاسی تصفیے کو فروغ دینے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔