بھارت نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو پیغام بھیج کر مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے۔
معید یوسف نے منگل کو بھارت کے ایک میڈیا ادارے 'دی وائر' کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے ایک پیغام میں مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی کہ یہ پیغام کس نے اور کس کے توسط سے بھجوایا گیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ "ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری طرف سے بات چیت کا کوئی پیغام نہیں دیا گیا۔"
انوراگ سری واستو نے معید یوسف کے بیان کو گمراہ کن اور پاکستانی حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معید یوسف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مشورے دیں اور بھارت کے داخلی معاملات پر تبصرے سے گریز کریں۔
انوراگ سری واستو نے بھارت کے اس الزام کو دہرایا کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے فروغ کے علاوہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر معاہدے کی بھی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہے کہ معید یوسف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت کی اس پیش کش پر پاکستان نے شرط رکھی تھی کہ اس میں تنازع کشمیر کے تیسرے فریق کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
معید یوسف نے کہا تھا کہ بھارت کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ واپس لے کر کشمیر میں سیاسی قیدیوں کو رہا اور محاصرہ ختم کرنا ہو گا۔
یاد رہے کہ پاکستان جامع مذاکرات شروع کرنے کے لیے بھارت کو دعوت دیتا رہا ہے۔ لیکن بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان اپنی سر زمین کو بھارت کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روکے گا۔ اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ لیکن پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات گزشتہ سال فروری سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خودکش حملے میں 40 سے زائد اہل کاروں کی ہلاکت کے بعد اسی ماہ دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فضائی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
پاکستان نے گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد بھارت سے سفارتی اور تجارتی تعلقات مزید محدود کر دیے تھے۔