نئی دہلی نے پاکستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آباد ہونے والے ہندو خاندان کے 11 افراد کی راجستھان میں پراسرار ہلاکت پر اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اسلام آباد، بھارت مخالف پراپیگنڈے کے لیے اس واقعے کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے کہا ہے کہ 'ہندو برادری' ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے حال ہی میں اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے بقول مذکورہ اموات کی وجہ زہریلے مادے کا استعمال تھا اور اس واقعے کی تحقیقات جا رہی ہیں۔
پاکستانی ہندو خاندان کے 11 افراد کی بھارت میں ہلاکت کا یہ واقعہ آٹھ اگست کو پیش آیا تھا۔
ترجمان انوراگ سری واستو نے آن لائن پریس بریفنگ میں کہا کہ متاثرہ خاندان ہندوؤں کی بھیل برادری سے تعلق رکھتا تھا اور طویل مدتی ویزے پر پاکستان کے صوبہ سندھ سے 2015 میں بھارت آیا تھا۔
یہ خاندان جودھپور کے لودتا گاؤں کے کھیتوں میں، جو کہ اس نے چھ ماہ قبل کاشت کاری کے لیے کرائے پر لیے تھے، رہائش پذیر تھا۔
ترجمان کے مطابق نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشن نے ایک خط کے ذریعے اس واقعے سے متعلق میڈیا رپورٹس اور دیگر تفصیلات کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔ ہم نے متعلقہ انتظامیہ سے حقائق معلوم کر کے اس کی تفصیلات ہائی کمشن کو 15 اگست کو فراہم کر دی تھیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے جب اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن کے سامنے ہونے والے مظاہرے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہائی کمشن اور اس کے عملے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان کی حکومت کی ہے۔
اس واقعے پر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان یا کسی بھی ملک سے بھارت آنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
ان کے بقول حکومت کی جانب سے شہریت کے قانون میں ترمیم سے قبل ہی میرا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان سے جو ہندو عافیت یا بہتر زندگی کی تلاش میں اپنی مرضی و منشا سے بھارت آئے ہیں، بھارت کو انہیں شہریت دینی چاہیے اور ان کی ہر طرح سے مدد بھی کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی کئی ہزار سال کی تاریخی روایت ہے کہ یہاں آنے والے ضرورت مندوں کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کی ہر ممکن مدد کی جاتی ہے۔
پروفیسر اختر الواسع نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ ساتھ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔
اس واقعے پر پاکستان میں ہونے والے مظاہرے پر انہوں نے کہا کہ مظاہرہ کرنا پاکستان کے شہریوں کا جمہوری حق ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے مظاہرے بھارت کو بدنام کرنے کے لیے بھی کرائے جا سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم 'فورم فار سول رائٹس' کے چیئر پرسن سید منصور آغا نے کہا کہ ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی ایک ساتھ ہلاکت ہو جائے اور موت کے اسباب کا بھی علم نہ ہو سکے، یہ تو ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے غرض نہیں کہ وہ پاکستانی تھے یا ہندوستانی تھے۔ وہ انسان تھے۔ اس خاندان سے سب کو ہمدردی ہونی چاہیے۔ پاکستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بھی ان سے ہمدردی ہونی چاہیے۔ البتہ نعشوں پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے واقعے کے کافی دن کے بعد اسلام آباد میں مظاہرہ ہونے پر سوال اٹھایا اور پراسرار اموات کی کوریج نہ کرنے پر بھارتی میڈیا پر شدید تنقید بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک بالی وڈ اداکار کی مبینہ خود کشی کے مختلف پہلوؤں کو میڈیا الگ الگ انداز میں پیش کر رہا ہے۔ لیکن اس اندوہناک واقعے پر اس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ 'پاکستان ہندو کونسل' کے صدر اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی قیادت میں ہندو برادری کے لوگوں نے متاثرہ خاندان کے افراد کے ساتھ 24 ستمبر کو اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشن کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا تھا کہ مذکورہ 11 ہندوؤں کو بھارت کے خفیہ اداروں نے زہر دیا تھا۔
ڈاکٹر وانکوانی نے دو روزہ احتجاج کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ بھارت میں 11 ہندوؤں کے مبینہ قتل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف سے بھی رجوع کریں گے۔
مظاہرے سے ایک روز قبل انہوں نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی تھی۔
پاکستان نے ایک بھارتی سفارت کار کو طلب کر کے اس واقعے پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ واقعے کے وقت وہاں موجود رہنے والے ایک ہندو مزدور سے ملنے کا موقع دیا جائے۔