بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 34 اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے کیونکہ ان کا کوئی بھی طالب علم اس سال گریجویشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری امتحان پاس نہیں کر سکا۔
اگست میں ان اسکولوں کے بند کرنے کے مقامی حکومت کے فیصلے کو ناقدین نے "غیر منطقی" اور "احمقانہ" قرار دیا ہے۔
ریاست کے اسکولوں کے لاکھوں طلبہ نے ہائی اسکول کے امتحان میں شرکت کی لیکن بند کیے گئے 34 اسکولوں کے ایک ہزار سے زائد طلبہ امتحان میں ناکام رہے۔
دوسری طرف والدین اور اساتذہ نے کووڈ نائنٹین کی عالمی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ کو درپیش مشکلات کو ناقص نتائج کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن آسام حکومت نے زیادہ تر دیہی علاقوں میں واقع ان 34 اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ان اسکولوں میں زیر تعلیم تمام طلبہ کو بہتر کارکردگی والے پڑوسی علاقوں کے اسکولوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تقریباً دو ہزار پانچ سو دیگر اسکولوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، اور کئی ذرائع نے بتایا کہ کہ "کارکردگی کی بنیاد پر حکومت مزید اسکول بند کرنا چاہتی ہے۔
آسام میں ایک استاد اور ماہر تعلیم بھوپین شرما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسکولوں کو بند کر کے حکومت طلبہ اور اساتذہ کو اجتماعی سزا دے رہی ہے۔ انہیں اس کی بجائے تمام سرکاری اسکولوں میں سروے کروانا چاہیے تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ طالب علموں نے کیوں برے نتائج دیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ سروے کے بعد ماہر ایجنسیوں کی مدد سے، حکومت کو ان اسکولوں میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں اپنانی چاہیے تھیں۔
پڑوسی ریاست مغربی بنگال کے ایک ہائی اسکول کے استاد سووک گھوشال نے کہا کووڈ نائنٹین لاک ڈاؤن کے دوران ملک بھر میں بہت سے طلبہ اچھی طرح سے تعلیم حاصل نہیں کر سکے، جو آسام کے اسکولوں میں طلبہ کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔
’’زیادہ تر غریب اور نچلے متوسط طبقے کے خاندان اپنے بچوں کو بھارت میں سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران، تقریباً تمام اسکول آن لائن موڈ میں تبدیل ہوگئے‘‘۔
گھوشال نے وی او اے کو بتایا کہ زیادہ تر بچے سرکاری اسکولوں میں،خاص طور پر دیہی علاقوں میں ، سمارٹ فونز کے خرچے کےمتحمل نہیں ہو سکتے تھے جس کے ذریعے انہیں آن لائن کلاسز میں شرکت کرنا تھی۔
کچھ طلبہ اپنے خاندانوں میں اسمارٹ فون ہونے کے باوجود، انٹرنیٹ خدمات کی ادائیگی کے لیے رقم کا بندوبست نہیں کر سکے۔ لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری اسکولوں کے طلبہ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ باقاعدگی سے آن لائن کلاسز میں شرکت کر سکا۔
آسام کے بارپیتا ضلع کے ایک استاد محمود حسین نے ریاست میں طلبہ کی خراب کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی کمی کو قرار دیا۔
محمود حسین کے بقول، "زیادہ تر اساتذہ کی تعیناتی شہری علاقوں میں ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اساتذہ کا بحران زیادہ شدید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے طلبہ امتحانات میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ میں طلبا کے قرضوں میں دس ہزار ڈالر تک کی معافیبھارت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق ہر اسکول کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شاگرد اور استاد کا تناسب، ہر تیس طالبعلموں کے لیے ایک استاد سے کم نہ ہو۔ پالیسی کے مطابق سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ طلبہ کی بڑی تعداد والے علاقوں میں یہ تناسب 25-1سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن، انہوں نے بتایا کہ آسام کے اسکولوں کے سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ دیہی علاقوں میں، ایک سو پچاس طلبہ کے لئے ایک استاد ہے جو انتہائی مایوس کن ہے
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر چاہتی ہے کہ طلبہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو اسے سرکاری اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔