بھارت میں پر ہجوم تشدد اور نفرت پر مبنی جرم کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ آسام کے وشوناتھ چریالی قصبے میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک 68 سالہ مسلمان کو، جس کا نام شوکت علی بتایا گیا ہے، گائے کا گوشت بیچنے کے شبہے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے مبینہ طور پر خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو ہجوم کے درمیان کیچڑ میں گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اسی دوران اسے جبراً گوشت کا ایک ٹکڑا کھلایا جاتا ہے۔
کچھ لوگ مقامی زبان میں شوکت علی سے اس کی شہریت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بنگلہ دیشی ہے، کیا اس کے نام کا اندارج شہریت کے قومی رجسٹر میں ہو چکا ہے۔
مقامی پولیس نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت علی ایک کاروباری شخص ہے اور وہ گزشتہ 35 برسوں سے اس علاقے میں ایک ہوٹل چلا رہا ہے۔
تشدد کے نتیجے میں شوکت زخمی ہوا اور ایک مقامی اسپتال میں اس کا علاج کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق اس بارے میں دو ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں اور پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس سے قبل ہفتے کے روز ہریانہ کے گوڑ گاؤں میں ایک ہندو تنظیم ہندو سینا کے دو سو کارکنوں نے، جو کہ تلواروں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس تھے، گوشت کی درجنوں دکانیں جبراً بند کروا دی تھیں۔
ایک تجزیہ کار اور سیاسی کارکن ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے پیش نظر ماحول کو عمداً فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں سے فرقہ واریت کی یہ سیاست جاری ہے تاکہ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنایا جا سکے۔ اس کا مقصد اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ گائے سے ان لوگوں کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ان کے بقول مرکزی وزیر کرن رجیجو نے، جو کہ بی جے پی کے لیڈر ہیں، پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ گائے کھاتے ہیں۔ لیکن گائے کے نام پر لوگوں کو مارنے والوں کو یہ جرات نہیں ہے کہ وہ کرن رجیجو پر چڑھ دوڑیں اور نہ ہی حکومت انہیں کابینہ سے نکالتی ہے۔
تسلیم رحمانی نے مزید کہا کہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے، جو کہ آر ایس ایس کے رہنما رہے ہیں، کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ وہ گائے کھاتے ہیں۔ گوا میں بی جے پی حکومت کے تحت گائے کے گوشت کا کاروبار چلتا ہے۔ یو پی کے ایک وزیر گائے کے گوشت کی ایک فیکٹری میں پارٹنر ہیں۔ اروناچل پردیش میں بی جے پی نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ بیف پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
بقول ان کے ایسے واقعات کا مقصد ماحول کو خراب کر کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
مجلس اتحاد المسلیمین کے صدر اسد الدین اویسی نے آسام کے واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے واقعات نے بہت سے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔
ادھر گوڑگاؤں میں ہندو سینا کے دو کارکنوں راکیش اور پرمود کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ دونوں پہلے بھی اس طرح کی پرتشدد وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔