بھارت اپنی بحریہ کے جنگی جہازوں کے ڈیزائن کی تیاری کے لیے ایک تحقیقی مرکز قائم کررہاہے جس کا مقصد بحر ہند کے پانیوں پر اپنے کنٹرول میں اضافہ اور علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے اثرات سے نمٹا ہے۔
بحریہ کا نیا تحقیقی مرکز جنوبی ریاست کیرالہ میں قائم کیا جائے گا جس پر اخراجات کا تخمینہ 13 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔
نیا تحقیقی مرکز ، جس کا سنگ بنیاد بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے منگل کے روز رکھاتھا، دو سال میں کام شروع کردے گا۔
نئی دہلی کے ایک ہفت روزہ جینز ڈیلی کے تجزیہ کار راہول بیدی کہتے ہیں اس مرکز کی تعمیر سے بحریہ سے متعلق درآمدات پر بھارتی انحصار میں کمی آئے گی۔
ان کا کہناتھا کہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ بھارت کو اپنی بحریہ کی بہت سی ضروریات کے لیے بیرون ملک بالخصوص روس پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور توقع ہے کہ اس ادارے کی تکمیل کے بعد اس شعبے میں ہماری خودانحصاری بڑھے گی اور ہم اپنی ضرورت کے بحری جنگی جہاز خود ڈیزائن بھی کرسکیں گے اور انہیں تیار بھی کرسکیں گے۔
اپنے ایک بیان میں بھارتی بحریہ نے کہاہے کہ نیا مرکز اپنے ساحلوں کی حفاظت اور سمندری نگرانی سے متعلق امور میں بحریہ کو مزید قوت دے گا۔
بھارت ، بحرہند میں اپنا اثرو رسوخ اور موجودگی بڑھانے کے لیے اپنی بحریہ کی توسیع اور اسے جدید بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کررہاہے، جہاں چین پہلے ہی بنگلہ دیش ، سری لنکا اور برما میں تجارتی بندرگاہوں کی تعمیر اور ان کے لیے سرمائے کی فراہمی کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہاہے۔
بحرہند ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان بحری تجارت کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔
بیدی کا کہنا ہے کہ بھارت کو بیجنگ کے بحرہند میں بڑھتے ہوئے پھیلاؤ پر تشویش ہے اور وہ علاقے میں اپنی بحری بالادستی یقینی بنانے کے لیے اپنی بحری قوت میں اضافہ کرنا چاہتاہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ان دونوں معیشتوں کے لیے بحرہند انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
اگلے دس سال کے عرصے میں بھارت اپنے135 جنگی جہازوں پر مشتمل موجودہ بحری بیٹرے میں، 40 نئے جنگی جہاز شامل کرنا چاہتا ہے جس میں طیارہ بردار جہاز بھی شامل ہیں۔