ایک دور تھا جب کاروبار اور خرید و فروخت کے لیےبارٹر سسٹم رائج تھا۔ چیزوں کے بدلے چیزیں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ پھر سونے چاندی کا اور کانسی کے سکوں کا نظام آیا۔ اس کے بعد پیپر کرنسی کا دور آیا ، اور پھر پلاسٹک منی یعنی کریڈیٹ اور ڈیبیٹ کارڈ کا، جو آج بھی چل رہا ہے اور اب ، ماہرین کے مطابق، ایک نئے مالی نظام کی آمد آمد ہے۔ جسےڈیجیٹل کرنسی کا نظام کہا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی ، کرپٹو کرنسی سے اس لحاظ سے مختلف ہوتی ہے کہ اس کا اجراء کسی حکومت کا مرکزی بینک یا اسٹیٹ بینک کرتا ہے۔ اور اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جب کہ کرپٹو کرنسی قسم کی دوسری کرنسیاں جاری کرنے والے ایک سے زیادہ لوگ یا گروپ ہوتے ہیں، اور یہ پرائیویٹ پارٹیاں ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ کرنسی کہاں سےجاری ہوئی اور اس سے ہونے والی آمدنی کہاں منتقل ہوئی ہے۔ غرض یہ پورا ایک نجی نظام ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت بھارت سے سامنے آ رہی ہے جس کی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا ہے کہ بھارت اس سال سے اپنا ڈیجیٹل کرنسی کا نظام شروع کر رہا ہے۔ اور اس کے لیے ضروری تیاریاں جاری ہیں۔ اس سےکچھ عرصے قبل پاکستان کے اسٹیٹ بنک نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ پاک کوائن کے نام سے اپنی ڈیجیٹل کرنسی جاری کرے گا۔
اس نئے نظام کے بھارت میں لائے جانے کے بارے میں وائس آف امریکہ نے بھارت کے ایک ممتاز ماہر معاشیات اور انڈین اسکول آف بزنس کے پروفیسر امیر اللہ خان سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اچانک ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور حکومت ابھی اس سلسلے میں قانون سازی کر رہی ہے۔ قبل ازیں انڈیا کا ریزرو بینک اس نظام کو لانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
بھارت کو ڈیجیٹل کرنسی میں کیا فائدہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس اچانک فیصلے کا سبب یہ ہے کہ حکومت کو اندازہ ہے کہ ملک میں ایک اندازے کے مطابق چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ کا کرپٹو کرنسی کا کارو بار ہو رہا ہے جس کو مانیٹر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس سلسلے میں قانون سازی کر کے اور ڈیجیٹل کرنسی کو متعارف کرواکر ڈیجیٹل اثاثوں سے ہونے والی آمدنی پر 30 فیصد ٹیکس عائد کردیا جائے۔ بقول ان کے، اس کی ایک وجہ بھارت کا گرتا ہوا ٹیکس ریوینیو ہے، جس سے ٹیکس آمدنی میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہےاور بھارت کا ریزرو بینک اس مالی سال سے، یعنی یکم اپریل سے یہ ڈیجیٹل کرنسی یا ڈیجیٹل روپیہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امیر اللہ خان کا کہنا تھا کہ اس نظام کو لانے سے دوسرے ملکوں، خاص طور پر خطے کے ملکوں کے ساتھ اس صورت میں کاروبار میں خاصی دشواری ہو گی جب وہ ان سے ڈیجیٹل کرنسی میں کارو بار پر اصرار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے وہی کیا ہے جو چین کچھ عرصے پہلے کر چکا ہے۔ اس نے کرپٹو کرنسی کو ختم کرنے کی بجائے اپنی ڈیجیٹل کرنسی یا ڈیجیٹل یوان متعارف کروا دیا۔ چین یہ تجربہ کر چکا ہے۔ اور بھارت یہ تجربہ کرنے جا رہا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب بھارت کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی ہو گی تو لوگ کسی باہر کی یا نا معلوم کرنسی کی بجائے اپنی ڈیجیٹل کرنسی کو ترجیح دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر ایوب مہر ہاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ہیں جو فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل سے وابستہ ہیں۔ وائس آ ف امریکہ سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک نے بھی اب سے کچھ عرصے قبل پاک کوائن کے نام سے اپنی ڈیجیٹل کرنسی لانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس پر کام کر رہا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی کا لین دین کیسے ہوتا ہے؟
ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ آنے والے وقت میں، خاص طور سے کووڈ کے تجربے نے اس کی ضرورت کو واضح کر دیا ہے، کیونکہ کرنسی نوٹوں کے استعمال سے ادائیگیاں نہ صرف مشکل ہیں بلکہ ان کرنسی نوٹوں کے لین دین نےاس وبا کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار کیا ہے۔ کیونکہ وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتے ہیں۔ جب کہ ڈیجیٹل کرنسی کا فائدہ یہ ہے کہ اسے ہاتھ میں لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ نہ تو یہ سکوں یا نوٹوں کی شکل میں ہو گی، نہ پلاسٹک منی کی شکل میں۔ بلکہ آپ کے جو اکاؤنٹ کمپیوٹر کے ذریعے کھلے ہوں گے، ان میں رقم جمع ہو جائے گی، اور اکاؤنٹ ہولڈر ڈیجیٹل آپریشن کے ذریعے ادائیگیوں، آن لائن خریدو فروخت وغیرہ کے لیے اس رقم کو استعمال کر سکے گا۔ جب کہ اس وقت اس مقصد کے لیے کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے نمبر یا بینک اکاؤنٹ کے نمبر دینے پڑتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کرنسی کا نظام کے رائج ہونے کے بعد یہ سارے طریقے ختم ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت اور پاکستان میں اس نظام کے لائے جانے اور علاقائی یا عالمی سطح پر اس کے اثرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس نئے نظام کو صحیح طریقے سے استعمال کیا گیا تو علاقائی یا عالمی تجارت کے حجم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے ای کامرس کو بڑھاوا ملے گا۔ اور جہاں اس نظام کا استعمال ہورہا ہے، بین الاقوامی اداروں کی مستند اسٹڈیز کے مطابق وہاں اس نظام کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کرنسی کا تعلق ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہے جو آنے والے دور کا لازمی جزو ہے۔ اور یقیناًاس میں وقت لگے گا، لیکن عام آدمی آخر کار اسے کرنسی کے طور پر قبول کرے گا اور یہ پیپر کرنسی کی جگہ حاصل کر لے گی۔