وسطی امریکہ کا ملک ایل سیلواڈور دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے آن لان کرنسی بٹ کوائن کی خرید و فروخت قانونی قرار دے دی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایل سیلوا ڈور کی حکومت کے اقدام پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ اس سے بیرونِ ملک سے لاکھوں ڈالرز آنے کے امکانات تو ہیں لیکن اس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے امکانات بھی ہیں۔
ایل سیلوا ڈور میں بٹ کوائن کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ ملک کے نوجوان اور متحرک 40 سالہ صدر نیب بوکیلے نے دیا ہے۔ حکام کو امید ہے کہ اس اقدام سے ملک میں آنے والی ترسیلاتِ زر پر شہریوں کے خرچ ہونے والے 40 کروڑ ڈالرز کی سالانہ بچت ہو گی۔ ایل سیلوا ڈور کے بیرونِ ملک شہریوں کی بڑی تعداد امریکہ سے ترسیلاتِ زر بھیجتی ہے۔
گزشتہ برس بیرونِ ملک سے ایل سیلوا ڈور چھ ارب ڈالرز کی ترسیلاتِ زر بھیجی گئی تھیں جو کہ ملک کے جی ڈی پی کے 23 فی صد کے لگ بھگ بنتی ہیں۔ ایسا دنیا کے بہت کم ممالک میں ہے جہاں جی ڈی پی میں اس قدر بڑا حصہ ترسیلاتِ زر کا ہو۔ واضح رہے کہ ایل سیلوا ڈور کی آباد لگ بھگ 70 لاکھ ہے۔
ایل سیلوا ڈور میں شہری آن لائن یا کرپٹو کرنسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب کہ اس کے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی و بیشی کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار ہیں۔
ملک میں حکومت نے کرپٹو کرنسی کو حقیقی رقم میں تبدیل کرنے کے لیے پہلے ہی اے ٹی ایم مشینیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ اور چیو کے نام سے ایک ایپلی کیشن بنائی گئی ہے جس کے تحت بٹ کوائن کو ڈالرز میں تبدیل کیا جا سکے گا۔
ایل سیلوا ڈور کے صدر نیب بوکیلے کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اس نظام کے نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ ان کے بقول دیگر دریافتوں کی ملک میں بٹ کوائن کے نظام میں وقت کے ساتھ بہتری آئے گی۔ کوئی بھی مستقبل کی جانب جانے والا کسی بھی کام کو ایک دن یا ایک مہینے میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
پیر کو ایل سیلوا ڈور نے 400 کے قریب کرپٹو کرنسی حکومت کے پاس ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے اثرات بٹ کوائن کی قیمت پر بھی پڑے جب کہ اس کی قدر میں 1.49 فی صد اضافہ ہوا ہے اور ایک بٹ کوائن کی قیمت 52 ہزار 680 ڈالر ہو گئی۔
خیال رہے کہ آن لائن کرنسی کی قدر میں بہت تیزی سے اتار چڑھاؤ بھی آتا رہا ہے۔ اپریل میں بٹ کوائن کی قیمت 64 ہزار ڈالرز تک پہنچ گئی تھی جب کہ مئی میں اس کی قیمت 30 ہزار ڈالرز تک آ گئی تھی۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔