بھارت اور پاکستان کے درمیان پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے سلسلے میں دونوں ممالک کے سیکریٹری تجارت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔اس حوالے سے باقاعدہ معاہدے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔تاہم دونوں ممالک کے درمیان اب تک جو واقعات اور حالات درپیش رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے مبصرین کے نزدیک بھارت سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں فائدے کم اور رسک بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔
مبصرین کے مطابق سرحدوں کے دونوں جانب انتہا پسند موجود ہیں جو بھارت سے پاکستان تک پیٹرولیم کی محفوظ ترسیل کے لئے کبھی بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی بسیں خالی آاور جارہی ہیں ، پیٹرولیم کی ترسیل پر ہی حفاظت کے نام پر اتنا خرچہ آئے گا کہ حساب کتاب یہیں برابر ہوجائے گا۔ پھر بھارت کو بھی پاکستان پر ابھی مکمل اعتماد نہیں ، یہی وجہ ہے کہ کثیر الممالک گیس پائپ لائن کئی سال سے حفاظتی تحفظات کے سبب رکی ہوئی ہے لہذا پیٹرولیم مصنوعات کی حفاظت بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ایک اور اہم ترین سوچ کا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر دہشت گرد یا شر پسند عناصرممبئی جیسے حملے کر بیٹھتے ہیں تو تجارتی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی یادہشت گردی کی صورت میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کو تجارت بڑھانے سے پہلے اس حوالے سے بھی معاہدے میں شقیں شامل کرنا ہوں گی تاکہ آنے والے وقت سے نمٹا جاسکے۔
دونوں جانب اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو تنگ نظری سے اب تک پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں ، وہ بھارت سے پیٹرولیم سمیت کسی بھی قسم کی تجارت کو کشمیر کے حل سے جوڑدیں گے ۔ ان کی نظر میں بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے سے پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے ۔ اور یہ ایسی شرط ہے جو ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔
بدقسمتی سے دونوں جانب ایسی سیاسی اور دینی جماعتیں سرگرم ہیں جن کی سیاست دونوں ممالک کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے ، ہوسکتا ہے ابھی یہ جماعتیں دوسرے مسائل میں مصروف عمل ہوں یا ان تک یہ خبر نہ پہنچی ہوں ، یااس پر ان کی توجہ ابھی نہ ہو مگر جیسے ہی یہ خبر ان تک پہنچی ان کا رد عمل فطری طور پر منفی ہی ہوگا۔ اس لئے دونوں حکومتوں کے لئے اس پہلو پر غور کرنا اورا سے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان کے لئے تجارتی فیصلے سے پہلے بھارت کو 'موسٹ فیورٹ نیشن '( پسندیدہ ترین ملک) کا درجہ دینا بھی ایک مشکل ترین فیصلہ ہوگا۔ اس حوالے سے اس پر سیاسی اورغیر سیاسی دونوں قسم کا دباوٴ بھی ہوگا۔ پاکستان کو بھارت سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے سے پہلے سیاسی ماحول کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بلوچستان کے راستے ایران سے اسمگل ہونے والا پیٹرول اب بھی بلاکسی رکاوٹ کے دستیاب ہے اور بھارت سے خریدے جانے والے پیٹرولیم سے حکومت کو اسی صورت میں پورا پورا فائدہ پہنچ سکتا ہے جبکہ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ بند ہو ورنہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکے گا۔
بھارت سے پیٹرولیم منصوعات کی درآمدکے فواعد
اس وقت ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 21 ملین ٹن ہے ۔ اس میں سے 85 فیصد حصہ درآمدات سے پورا کیا جاتا ہے۔ وزارت تجارت کے مطابق پاکستان میں ڈیزل کا کنزمپشن 4.4ملین ٹن ہے اگر بھارت سے ڈیزل کی درآمد شروع کردی جائے تو ڈیزل کی قیمتیں خود بخود کم ہوجائیں گی۔
بھارت کی پیداواری صلاحیت
بھارت کی بھٹنڈا اور پانی پٹ میں موجود ریفائنریز کی پیداواری صلاحیت 15 ٹن ہے جبکہ ریلائنس انڈسٹریز کی دو ریفائنرز کی پیداواری صلاحیت 40 ملین ٹن ہے ۔ تجویز یہ ہے کہ واہگہ کے راستے بذریعہ ریل اور سڑک جبکہ کراچی کے راستے بذریعہ بحری جہاز بھارت سے پیٹرولیم منصوعات پاکستان درآمد کی جائیں ۔ ان تجاویز پر پاک بھارت سکریٹری تجارت کے درمیان اسلام آباد میں دو روزہ مذاکرات جاری ہیں۔