|
بھارت کے وزیر اعظم نے پیر کو کشمیر کے متنازع خطے کے شمال مشرق میں ایک سرنگ کا افتتاح کیا ہے جو ہر موسم سرما میں بھاری برف سے دوسرے علاقوں سے الگ تھلگ ہو جانے والے علاقے لداخ تک رسائی کا ذریعہ ہو گی۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق 932 ملین ڈالر کی لاگت کے اس منصوبے میں ایک دوسری سرنگ کے علاوہ پلوں اور اونچی پہاڑی سڑکوں کی تعمیر کا ایک سلسلہ شامل ہے۔
واضح رہے کہ لداخ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان واقع ایک سرد علاقہ ہے جو کئی دہائیوں سے ان ملکوں میں علاقائی تنازعات کا باعث ہے۔
جب مودی ریزورٹ ٹاؤن سونمرگ 6.5 کلو میٹر طویل سرنگ کا افتتاح کرنے کے لیے آئے تو اس موقع پر سخت سکیوریٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔
یہ قصبہ وادی کشمیر کے صنوبر کے درختوں سے سرسبز پہاڑوں کے آخر میں واقع ہے۔ لداخ اس علاقے سے گزرتے ہوئے چٹانی درہ زوجیلہ کے پار شروع ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
"زیمارف" نام کی نئی سرنگ کے بننے کے بعد پہلی بار لداخ تک پورے سال کے دوران رسائی حاصل ہو جائےگی۔
منصوبے کے تحت بننے والی دوسری سرنگ تقریباً 14 کلومیٹر طویل ہو گی جو درہ زوجیلا کی بجائے قریب کے دوسرے راستے سے سونمرگ کو لداخ سے ملائے گی۔ یہ سرنگ 2026 میں مکمل ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ سردیوں میں لداخ اور سونمرگ دونوں ہی میں شدید برف باری کے نتیجے میں پہاڑی گزرگاہوں کے بند ہونے کے باعث ہر سال تقریباً چھ ماہ تک علاقے کے باقی شہروں سے کٹ جاتے ہیں۔
پیر کو سرنگ کے افتتاح کے موقع پر علاقے میں پولیس اور فوجیوں کی نفری تعینات کی گئی اور وزیر اعظم کے دورے کے لیے حفاظتی اقدام کے طور پر اہم چوراہوں پر چوکیاں قائم کی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوجیوں نے متعدد مقامات پر بندوق بردار نشانے بازوں کو بھی تعینات کیا جبکہ فضا میں ڈرون مسلسل علاقے کی نگرانی کرتے رہے۔
افتتاحی تقریب کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کیا جس میں سینکڑوں لوگوں نے شدید سردی میں شرکت کی۔ مودی نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ منصوبے سے سڑک کے ذریعہ علاقے کے مختلف حصوں میں رابطوں میں بہتری آئے گی اور خطے میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔
اس موقع پر بھارتی رہنما کی کابینہ کے کچھ وزراء اور کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی موجود تھے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں سرنگ کے ذریعہ رابطہ وادی کشمیر اور لداخ کے درمیان شہریوں کو سال بھر نقل و حرکت کی آزادی فراہم کرے گا وہیں یہ منصوبہ بھارت فوج کے لیے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے وہ لداخ میں آپریٹ کرنے کے لیے نمایاں طور پر بہتر صلاحیتیں حاصل کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ سال اکتوبر میں مسلح حملہ آوروں نے سرنگ کے منصوبے پر کام کرنے والے کم از کم سات افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جبکہ کم از کم پانچ زخمی ہو گئے تھے۔
حملے کےلیے پولیس نے علاقے میں بھارتی حکمرانی کے خلاف دہائیوں سے لڑنے والے عسکریت پسندوں کو مورد الزام ٹھہرایاتھا۔
سال 2019 میں نئی دہلی نے کشمیر کی نیم خود مختار آئنی حیثیت اور زمین اور ملازمتوں پر مقامی لوگوں کی وراثتی ملکیت کے حق کے ختم کر دیا تھا۔
بھارت کی وفاقی حکومت نے سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو یونین علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں بھی تقسیم کر دیا تھا۔
یہ بھارت کی تاریخ میں اس قسم کا پہلا اقدام تھا کہ جس کے تحت کسی ریاست کی حیثیت کو وفاق کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر دیا گیا۔
SEE ALSO: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کیوں ہو رہی ہے؟بھارت اور پاکستان دونوں ملک کشمیر کے اپنے اپنے کنٹرول والے حصوں کا انتظام چلا تے ہیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ان کے ملک کا حصہ ہے۔
بھارت کے زیر اہتمام کشمیر کے حصے میں عسکریت پسند 1989 سے نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
بہت سے کشمیری مسلمان یا تو ان باغیوں کے اس علاقے کے بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام دونوں حصوں کو متحد کرنے کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں یا پھر وہ پاکستانی حکمرانی کے تحت یا مکمل طو پر ایک آزاد ملک کے طور پر بنائے جانے کے حق میں ہیں۔
نئی دہلی کا اصرار ہے کہ کشمیر کی عسکریت پسندی پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں فوجی افسر ہلاک، تین اہلکار زخمیاسلام آباد اس الزام کی سختی سےتردید کرتا ہے اور بہت سے کشمیری اسے آزادی کی ایک جائز جدوجہد سمجھتے ہیں۔
دہائیوں پر محیط اس تنازعے میں ہزاروں شہری، عسکریت پسند اور سرکاری فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف بھارت اور اس کا دوسرا ہمسایہ چین سال 2020 سے لداخ کے علاقے میں ایک مسلح تنازعہ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔باوجود اسکے کہ یجنگ اور نئی دہلی نے گزشتہ سال اکتوبر میں متنازعہ علاقوں میں گشت پر اتفاق کیا تھا۔
چین اور بھارت نے علاقے میں اپنی سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات کر رکھے ہیں جنہیں توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی مدد حاصل ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)