کشمیر میں تشدد اور عسکری کارروائیوں میں 63 فی صد کمی: بھارتی حکومت کا دعویٰ

فائل فوٹو

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے پُرتشدد اور عسکریت پسندی کے واقعات میں سال 2019 کے مقابلے میں 2020 میں 63 اعشاریہ نو فی صد کمی آئی ہے جب کہ اس عرصے میں شہری ہلاکتوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

بھارتی وزارتِ داخلہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ برس سیکیورٹی فورسز کی اموات میں 29 اعشاریہ ایک اور شہری ہلاکتوں میں 14 اعشاریہ دو آٹھ فی صد کمی ہوئی۔ تاہم اس دوران پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر پیش آنے والی 'در اندازی' اور فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس رپورٹ کو 'سال 2020 میں وزارتِ داخلہ کی سرگرمیاں۔ سال کے دوران پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ' کا نام دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں تشدد کے واقعات میں 42 شہری ہلاک ہوئے جب کہ 2020 میں یہ تعداد کم ہو کر 32 رہی۔ اسی طرح 2019 میں 78 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے لیکن 2020 میں 56 اہلکاروں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔

SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں جیولر کا قتل، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ لینے والوں کے لیے پیغام؟

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد علاقے میں عسکری کارروائیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی جب کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران مطلوب عسکری کمانڈروں ریاض نائیکو، قاری یاسر، حیدر اور برہان کوکا کو ہلاک کیا گیا۔

یاد رہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پر کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کو تحفظات ہیں اور وہ ان ہلاکتوں کو ریاستی جبر قرار دیتے ہیں۔

کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ

کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن اور پاکستان کے ساتھ ملنے والی بین الاقوامی سرحد (جو پاکستان میں ورکنگ بانڈری کہلاتی ہے) پر پیش آنے والے مبینہ 'دراندازی' اور فائرنگ کے واقعات میں سال 2020 میں اضافہ ہوا اور تعداد کے لحاظ سے یہ واقعات گزشتہ اٹھارہ برس میں کسی بھی سال پیش آنے والے واقعات میں سب سے زیادہ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں حد بندی لائن اور جموں۔ سالکوٹ سرحد پر پیش آنے والے واقعات میں 36 افراد ہلاک اور 130 زخمی ہوئے جب کہ سرحدوں پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے 5100 واقعات پیش آئے، 2019 میں یہ تعداد 3289 تھی۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت مسلسل نومبر 2003 میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ فائرنگ اور مارٹر شیل کے حملوں کے واقعات میں ہر بار پہل بھارتی فوج یا سرحدی حفاظتی دستے (بی ایس ایف) کی طرف سے ہوتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

لداخ تنازع: بھارتی کشمیر میں فوجی نقل و حرکت میں اضافہ

اسی طرح کے الزامات بھارت کی جانب سے پاکستان کی فوج اور رینجرز پر لگائے جاتے ہیں۔

ہمسایہ ملکوں کے درمیان متنازع سرحد پر فائرنگ کے واقعات میں دونوں ملکوں کی افواج کے مقابلے میں سرحدی علاقوں میں بسنے والے عام شہریوں کا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے جس کا اعتراف دونوں ملک کرتے بھی ہیں۔

انعام کا لالچ: تین کشمیری نوجوان فرضی جھڑپ میں قتل

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فوج کے ایک افسر نے 20 لاکھ روپے کی انعامی رقم حاصل کرنے کے لیے جولائی 2020 میں تین ایسے نوجوانوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا تھا جو شورش زدہ ریاست کے جنوبی ضلع شوپیاں کے باغ میں کام کر رہے تھے۔

مقتولین کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان تھیں جن کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے پیارے شوپیاں کے ایک باغ میں مزدوری کے لیے گئے تھے لیکن انہیں فوجی اہلکاروں نے فرضی جھڑپ میں قتل کیا اور پھر اُنہیں غیر شناخت شدہ دہشت گرد قرار دے دیا۔

SEE ALSO: بھارتی فوج کے ایک افسر اور سویلین کے خلاف تین کشمیریوں کے قتل کا مقدمہ درج

مقامی پولیس کی طرف سے شوپیاں کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر مقدمے کی فردِ جرم کے مطابق محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان نامی نوجوانوں کو فوجی افسر کیپٹن بھوپیندر سنگھ نے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ سرچ آپریشن کے نام پر نزدیک سے گولیاں مار کر قتل کیا۔

ملزمان پر عائد فردِ جرم کے مطابق ملزمان نے مقتولین کے شناختی کارڈذ کو ضائع کرنے کے بعد انہیں دہشت گرد قرار دیا اور پولیس کو مقتولین سے لاشوں سے متعلق آگاہ کیا۔

دوسری جانب بھارتی فوج کے ایک ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے وضاحت کی ہے کہ فوج میں جنگی صورتِ حال میں کوئی کارروائی کرنے یا فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی کارنامے پر نقد انعام دینے کا کوئی نظام نہیں ہے۔

سری نگر سے جاری بیان میں کرنل راجیش کا کہنا تھا کہ شوپیاں میں کی جانے والی کارروائی کے سلسلے میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ گمراہ کُن ہیں کیوں کہ انعام کے لیے کوئی کارروائی کرنا فوج کے داخلی طریقہ کار کی نفی کرتا ہے۔

'فوجی افسر کا کورٹ مارشل ہو گا'

کیپٹن بھوپیندر سنگھ اس وقت فوج کی حراست میں ہیں اور فوج کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ مذکورہ کیس میں تحقیقات مکمل کر لی ہے۔

فوج نے لواحقین کو یقین دلایا ہے کہ واقعے میں ملوث فوجی افسر اور ماتحت اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں تفصیلات عنقریب منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔

فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ کیپٹن بھوپیندر سنگھ کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔

اس سے پہلے بھارتی فوج نے یہ اعتراف کیا تھا کہ امشی پورہ میں کیے گئے آپریشن کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کی گئی اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ 1990 سے تجاوز کیا۔

اس ایکٹ کے تحت فوج کو جموں و کشمیر میں شورش اور آزادی کے لیے چلائی جانے والی مسلح جدوجہد کو دبانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔

بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل بی ایس راجو نے کہا ہے کہ "ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے میں پورا پورا انصاف ہوگا۔"

دوسری جانب مقتولین کے والدین اور دیگر رشتے داروں نے ملوث فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔