بھارت جمعے کے روز چاند کی جانب اپنا ایک راکٹ روانہ کر رہا ہے، جس میں چاند پر اتاری جانے والی ایک گاڑی بھی موجود ہے جس زمینی مرکز وہاں سائنسی ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے استعمال کرسکے گا۔
اب تک صرف تین ملک یعنی امریکہ، روس اور چین ہی چاند کی سطح پر محفوظ طریقے سے اپنی گاڑیاں اتار چکے ہیں۔
چاند پر اپنی گاڑی اتارنے کی یہ مہم بھارتی خلائی ادارے ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن(ISRO) کی دوسری کوشش ہے۔ چار سال قبل 2019 میں ایک ایسی ہی مہم اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب بھارت کے خلائی سائنس دانوں کا رابطہ چاند پر راکٹ اترنے سے کچھ دیر قبل ٹوٹ گیا تھا۔
بھارتی سائنس دانوں نے اپنی اس مہم میں چاند پر اتارنے کے لیے روبوٹک گاڑی تیار کی ہے جیسے ایک لینڈر کے ذریعے چاند کی سطح پر اتارا جائے گا ۔ اس مشن کا نام چندریان تھری اس لیے ہے کیونکہ چندریان سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب چاند گاڑی ہے۔ تھری سے مراد یہ چاند کی جانب بھیجا جانے والا تیسرا مشن ہے۔
بھارتی خلائی ایجنسی جمعے کی دوپہر چاند کی جانب اپنا راکٹ روانہ کرے گی جس میں ایک لینڈر اور ایک روبوٹک گاڑی موجود ہو گی۔ یہ گاڑی 23 یا 24 اگست کو چاند کی سطح پر اترے گی جو وہاں دو ہفتوں تک چاند کی سطح کا نقشہ تیار کرے گی۔
خلائی ادارے کے ڈائریکٹر ایس سوماناتھ نے بتایا کہ چاند پر گاڑی اتارنے کی تاریخ کا تعین کرتے وقت یہ پیش نظر رکھا گیا ہے کہ وہاں سورج کب طلوع ہو گا۔ اگر اس میں تاخیر ہوئی تو پھر ہمیں چندریان اتارنے کی تاریخ کو ستمبر تک بڑھانا پڑے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی روبوٹک گاڑی محفوظ طریقے سے اتارنا چاہتے ہیں۔
بھارتی خلائی سائنس دان اپنی کمپیوٹرائزڈ گاڑی کو چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں اتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چاند کا یہ تاریک اور سرد علاقہ ہے، جس کے بارے میں دستیاب معلومات بہت محدود ہیں۔
منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینیلیسس میں خلا سے متعلق مشیر اجے لیلے نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ چاند کے جنوبی حصے میں بڑی مقدار میں معدنی ذخائر اور ہیلیم تھری موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پانی کے ذخائر ملنے کے بھی امکانات ہیں۔
یورپی اسپیس پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ٹامس ہروزنسکی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ بھارت چاند کے اس حصے کا نقشہ بنا کر مستقبل میں چاند پر بھیجنی جانے والی مہمات میں مدد کر سکتا ہے۔
اجے لیلے کاکہنا ہے کہ بھارتی سائنس دان چندریان تھری کی محفوظ لینڈنگ کے بارے میں پرامید ہیں۔ ماہرین نے ان خرابیوں کو دور کر دیا ہے جو اس سے قبل کے مشن کی ناکامی کا سبب بنی تھیں۔
بھارت کے خلائی امور کے وزیرجتیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ہماری خلائی مہارتوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہم چاند کی جانب سفر کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتے۔
بھارت کے خلائی سانئس دان ایک عرصے سے چاند پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے 2008 میں چاند پر پانی کی تلاش کی سائنسی مہم میں حصہ لیا تھا۔ 2013 میں انہوں نے اپنا ایک راکٹ مریخ کے مدار میں بھیجا تھا۔ بھارتی سائنس دان اگلے سال اپنے خلاباز ، خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: مودی کا دورۂ امریکہ؛ سیمی کنڈکٹرز کی تیاری سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے سمجھوتےحالیہ برسوں میں چاند کے لیے سائنسی مہمات میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے جس کی وجہ زمین پر اہم معدنیات اور دیگر وسائل میں مسلسل کمی اور چاند پر بڑی مقدار میں ان کی دستیابی کے امکانات ہیں۔ سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہ چاند کی جانب آمدورفت کو آسان اور تیز بنا کر چاند کے وسائل زمین پر استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بیرونی خلا ان شعبوں میں شامل ہے جس پر گزشتہ ماہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے واشنگٹن کے اپنے دورے میں امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اگلے سال ایک بھارتی خلا باز کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بھیجنے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
بھارت نے خلائی تعاون کے امریکی قیادت کے بین الاقوامی شراکت داری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کا مقصد پانچ عشروں کے طویل وقفے کے بعد 2025 تک چاند پر انسانوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع کرنا ہے۔
(انجنا پسریچا، وی او اے نیوز)