نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے شورش زدہ علاقے میں سوشل میڈیا اور بعض دوسری سائٹس، جِن میں ’گوگل‘ اور ’اسکائپ‘ بھی شامل ہیں پر ایک ماہ تک کے لئے پابندی لگا دی ہے۔ سرمائی دارالحکومت جموں میں ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وادئ کشمیر میں ایک ماہ تک یا اگلا حکم جاری کئے جانے تک ’فیس بُک‘، ’ٹویٹر‘، ’واٹس ایپ‘ سمیت بائیس سوشل اور دیگر سائٹس پر پابندی عائد رہے گی۔
محکمہ داخلہ نے ’ایسا انڈین ٹیلیگراف ایکٹ‘ اور ’انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ‘ کے تحت اسے حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا ہے۔ محکمے نے ریاستی ہائی کورٹ میں حکم نامے کے سلسلے میں عذرداری یا کیویٹ بھی داخل کرا دی ہے۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر بھی ایک ماہ تک کے لئے پابندی لگادی گئی ہے۔ موبائیل انٹرنیٹ سروسز پہلے ہی 17 اپریل سے معطل ہیں۔
موبائیل انٹرنیٹ سروسز کو وادئ کشمیر کے طول و عرض میں طالب علموں کے حکومت اور بھارت مخالف مظاہروں اور اِن کے دوراں بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اُٹھنے کے ساتھ ہی جزوی طور پر بند کردیا گیا تھا۔ لوگوں نے طلبہ اور طالبات پرحفاظتی دستوں کی طرف سے مظاہروں کو دبانے کی کوششوں کے دوران اِن پر کی گئی مبینہ زیادتیوں کے ویڈیوز اور تصویروں کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنا شروع کیا تھا۔
تاہم، عہدیداروں نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ سروسز کو ’’جزوی طور پر اس لئے بند کرنا پڑا تھا‘‘، کیونکہ، بقول ان کے، ’’شرپسند عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے افوائیں پھیلا کر تشدد کو ہوا دے رہے تھے‘‘۔
بُدھ کو جموں میں جاری کئے گئے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’کچھ عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ امن و سکون کے دشمن عناصر سماجی ویب سائٹس کا غلط استعمال کر رہے ہیں؛ اور اس طرح، عوام کے جان و مال اور مفادات کو ذق پہنچانے کی دانستہ کوشش کی جاتی رہی ہے‘‘۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس روش کو روکنے کے لئے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنا ناگزیر بن گیا تھا‘‘۔
لیکن، حزبِ اختلاف کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کا اصرار ہے کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت اپنی ناکامیوں اور حفاظتی دستوں کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے انٹرنیٹ اور دوسرے مواصلاتی ذرائع پر قدغن لگا رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا کہ ’’انٹرنیٹ پر پابندی سے کشمیر کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا اور تاجروں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اور طالب علموں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
مبصرین کے مطابق، سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی کو اُن حالیہ اور ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہیئے جب کشمیری نوجوانوں پر بھارتی حفاظتی دستوں اور مقامی پولیس کی طرف سے کی گئی مبینہ زیادتیوں پر مبنی ویڈیوز کا سماجی ویب سائٹس پر ڈالا جانا حکومت کے لئے سبکی کا باعث بنا۔
سب سے زیادہ ’وائرل‘ ہونے والی ویڈیو میں9 اپریل کو بھارتی پارلیمان کے ایک ضمنی انتخاب کے دوران ایک کشمیری نوجوان کو، جس کی بعد میں شناخت فاروق احمد ڈار کے طور پر ہوئی تھی، فوج کی طرف سے جیپ کے ساتھ باندھے جانے کے بعد، گاؤں گاؤن گھماتے اور پتھراؤ کرنے والوں سے بچنے کے لئے ڈھال بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے منظرِ عام پر آنے سے بھارت میں تہلکہ مچا اور ریاست اور ریاست کے باہر سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملوث فوجیوں کے خلاف سخت کاررائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ بعض لوگوں نے سماجی ویب سائٹس پر آکر شورش زدہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں کی مکمل حمایت اور تائید کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ انہیں درپیش صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے دوراں اس طرح کے اقدامات کا انجام دیا جانا ناگزیر ہے۔
پولیس نے پہلے ہی 9 اپریل کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں فوج کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔