امریکہ میں آئیندہ سال کے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کی دوڑ میں دو بھارتی نژاد امریکی بھی شامل ہیں، جو ماہرین کے مطابق بھارتی کمیونٹی کے امریکی سیاست میں بڑھتے ہوئے کردار اور اہمیت کا اظہار ہے۔
ایک طرف تجربہ کار سیاست دان اور سابقہ اعلیٰ سفارت کار نکی ہیلی ہیں جب کہ نامزدگی کے پہلے مباحثے میں شریک ہونے والے دوسرے بھارتی نژاد امیدوار 38 سالہ ویویک راما سوامی ہیں جو کہ بائیو ٹیک کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
پہلے پرائمری مباحثے کے بعد لاکھوں امریکی شہریوں نے یہ جاننے میں دلچسپی ظاہر کی کہ آخر سب سے کم عمر امیدوار ویویک راما سوامی کون ہیں اور وہ اس دوڑ میں شامل ہو کر کیا مختلف خیالات لے کر آئے ہیں۔
ویویک راما سوامی کون ہیں؟
ویویک راما سوامی 1985, میں امریکی ریاست اوہائیو میں بھارت سے آنے والے تارکین وطن کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والدین بھارت کے صوبے کیرالا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد وی گناپاتھی راما سوامی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کالیکٹ سے فارغ التحصیل ہوئے تھے ۔ وہ ایک انجنیئر تھے اور انہوں نے جنرل الیکٹرک کمپنی کے پیٹنٹ کے اٹارنی کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔ ان کی والدہ ماہرنفسیات ہیں جنہوں نے بھارت میں میسور میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی۔
ویویک راما سوامی نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی جہاں وہ ہارورڈ پولیٹیکل یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔
SEE ALSO: ری پبلکن صدارتی امیدواروں کی پہلی ڈبیٹ میں ایک دوسرے پر نکتہ چینی، بائیڈن حکومت پر بھی تنقیدانہوں نے سن 2014 میں رونٹ سائنسز کے نام سے ایک دوا ساز کمپنی قائم کی ۔ علاوہ ازیں، وہ مالی کاروبار میں بھی ملکیت رکھتے ہیں۔
ان کا شمار کامیاب کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے اور امریکی فوربز میگزین کے مطابق اگست 2023, میں ان کے اثاثوں کی مالیت 950 ملین ڈالر ہے۔
انہوں نے عملی سیاست میں رواں سال فروری میں اس وقت قدم رکھا جب انہوں نے ری پبلکن پارٹی کے 2024 کے الیکشن کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے پرائمری دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
سوامی کا دعویٰ ہے کہ کووڈ، آب و ہوا اور صنفی نظریات کے باعث امریکہ کو قومی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے مذکورہ شعبوں میں کئی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔
راما سوامی کا آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں بیان امریکی میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مباحثے کے دوران انہوں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے س کہا کہ آب و ہوا کی تبیدیلی سے بجائے خود اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے اس مسئلے کے حل کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں سے مرتے ہیں اور یہ ایک چکما ہے۔
'ری پبلکن پارٹی کا ابھرتا ہو ا ستارہ'
ابتدائی مباحثے میں ویویک راما سوامی اپنے مدمقابل سیاستدانوں سے اپنے آپ کو ممتاز اور بہتر متبادل کے طور پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتے نظر آئے۔
بعض خبر رساں اداروں نے اپنی رپورٹس میں ان کی مباحثے میں توانائی سے بھرپور شر کت کو نوٹ کیا جبکہ وہ تقریباً ہر موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے اور دوسرے امیدواروں کے موقف کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔
بعض مبصرین نے انہیں ری پبلیکن پارٹی کا "ابھرتا ہوا ستارہ "بھی بیان کیا گیا۔ اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے سرخی لگائی کہ سوامی توجہ کا مرکز رہے۔
واشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشل سروس سے وابستہ پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ راما سوامی ایک قابل بھروسہ آواز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ سوامی سیاست میں ابھی نووارد ہیں۔
"چاہے ان کی کوشش کا نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ ان کے لیے بہت اہم ہے اور ان کا ابھرنا بھارتی کمیونٹی کی امریکی قومی زندگی میں موجودگی کی بڑی مثال ہے۔"
سوامی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی دکھائی دیتے ہیں اور شاید وہ ٹرمپ کے ہمراہ اگلے سال کے انتخابات کے لیے نائب صدر کے امیدوار کے طور پر اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ:2024 کے صدارتی الیکشن میں کون کون میدان میں ہوگا؟
دوسرے امیدواروں نے راما سوامی کے بیا نئے کو کیسے لیا؟
ریپبلکن امیدواروں نے ان کی یوکرین کے لیے روس کے ساتھ جنگ میں امریکہ کی حمایت پر سوال اٹھانے پر تنقید کی۔
نکی ہیلی نے بھی مباحثے کے دوران سوامی پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے کم تجربہ کار ہونے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوامی کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،" آ پ کو خارجہ پالیسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہ نظر آرہا ہے۔"
جب سوامی نے کہا کہ ان کے علاوہ تمام امیدوار لکھی لکھائی روایتی تقاریر کر رہے ہیں تو سابق نائب صدر مائیک پینس نے طنزاً کہا کہ "کیا یہ آپ کی اپنی لائن ہے؟""
ایک موقع پر راماسوامی نے اصرار کیا کہ وہ "اسٹیج پر موجود واحد شخص ہیں جو بکاؤمال نہیں ہیں اور نہ انہیں کسی نے خرید رکھا ہے۔ اس کے جواب میں ریاست نیو جرسی کے سابق گورنر کرسٹی نے کہا کہ راما سوامی (مصنوعی ذہانت کی مشین) چیٹ جی پی ٹی کی طرح بولتے ہیں۔ بعد ازاں، کرسٹی کو اپنے بیان پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔