سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد منقسم امریکی سیاست میں دونوں پارٹیوں کی جانب سے سامنے آنے والا ردِ عمل متوقع تھا۔ ان کے ریپبلکنز رفقا نے پراسیکیوٹر پریہ دعویٰ کرتے ہوئےتنقید کی کہ اس کی وجہ خالصتاًدو جماعتی سیاست تھی، جب کہ ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی قانون سے بالاتر ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ریپبلکن پارٹی کےایسے ارکان بھی ٹرمپ کے دفاع میں سامنے آئےہیں جو 2024 کی دوڑ میں صدارتی نامزدگی کے لیے ٹرمپ کے خلاف مقابلے نظریں جمائے ہوئےہیں۔
فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے، جنہوں نے 2024 کے صدارتی مقابلے میں حصہ لینے کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن قومی سطح پر نامزدگی کے لیے ٹرمپ کےبعد دوسرے نمبر پر ہیں، ٹوئٹر پر نیویارک کے ڈیموکریٹ پراسیکیوٹر ایلون بریگ، پر الزام عائد کیا کہ وہ ’’سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے‘‘ قانونی نظام کو ستعمال کر رہے ہیں۔
فلوریڈا کے ریپبلیکنز گورنر ڈی سینٹیس نے کہا کہ وہ سابق صدر کو الزامات کا سامنا کرنے کے لیے فلوریڈا سے نیویارک کے عہدے داروں کی تحویل میں دینے کے لیے ان کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ تاہم ڈونلڈٹرمپ کے وکیل نے کہا ہے کہ سابق صدر خود کو تحویل میں دینے کے لیے نیویارک جائیں گے۔
ٹرمپ کے عہد صدارت میں ا قوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر نکی ہیلی نے،جنہوں نے 2024 میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، فرد جرم کے بارے میں کہا، ’’یہ انصاف سے زیادہ انتقام لگتی ہے‘‘۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دوران وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز رہنے والےمائیک پومپیو نے جو ایک اور ممکنہ صدارتی امیدوار ہیں، استغاثہ پر’’سیاسی کھیل‘‘ کھیلنےکا الزام لگایا۔
2024 کے انتخابات کے ایک اور ممکنہ امیدوار، جنوبی کیرولائنا کے ریپبلکن سینیٹر ٹم سکاٹ نے ایک بیان میں کہا، ’’ جرائم پیشہ نیو یارک ڈی اے پرتشدد مجرموں کے لیے قانون کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے، پھر بھی سیاسی دشمنوں کے خلاف قانون کو ہتھیار بنایا ہے۔ یہ ایک دھوکا ہے، اور دنیاکے سب سےعظیم ملک میں ایسانہیں ہونا چاہیے‘‘۔
ٹرمپ کے دیرینہ ڈیموکریٹک مخالفین کا اپنے مختلف ردعمل میں کہنا تھا کہ اگر کسی غلط کام کا الزام لگایا گیا ہے تو کسی بھی شخص کو قانونی کارروائی سے بچنا نہیں چاہئے اور الزامات کا جواب دینے کے لیے انہیں عدالت میں ہونا چاہیے۔
ایوانِ نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے ٹوئٹر پرکہا، ’’گرینڈ جیوری نے حقائق اور قانون کے مطابق کام کیا ہے۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر ایک کو (اپنی)بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مقدمے کی سماعت کا حق حاصل ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ سابق صدر پرامن طریقے سے اس نظام کا احترام کریں گے جو انہیں یہ حق دیتا ہے۔
سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، ایک بیان میں کہا، ’’ہر امریکی کی طرح مسٹرٹرمپ بھی انہی قوانین کے تابع ہیں۔ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ ،سیاست سےنہیں (بلکہ)حقائق اور قانون کے مطابق ایک قانونی نظام اور ایک جیوری سے فائدہ اٹھا سکیں گے‘‘۔
انہوں نے مزیڈ کہا کہ کیس میں کوئی بیرونی سیاسی اثر و رسوخ، دھمکی یا مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ میں مسٹر ٹرمپ کے ناقدین اور حامیوں دونوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اس عمل کو پرامن اور قانون کے مطابق آگے بڑھنے دیں۔
نیویارک کی سڑکوں پر اس خبر پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ’’ان پر تو بہت سی باتوں پر فرد جرم عائد ہو سکتی تھی اور آخر کار کسی چیز کے لیے ان پرفرد جرم عائد کی جارہی ہے۔ یہ وقت کی بات ہے ‘‘۔ نیویارک کی رہائشی کیرولین نے کہا۔
آسکر نامی نیویارک کے ایک اور رہائشی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ فرد جرم سے ٹرمپ کو دوبارہ انتخاب میں مدد ملے گی۔ ’’شاید یہ وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں ۔ یہ مفت کی مارکیٹنگ ہے۔ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو وہ کہہ رہےہوں گے -دیکھا میں جیت گیا! مجھے ووٹ دیں‘‘۔
ریاست کنیکٹیکٹ سے تعلق رکھنے والے ایمز نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ فرد جرم قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرتی ہے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرد جرم ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایک سول سوسائٹی میں رہتے ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ امید ہے کہ اگر انہوں نے جرم کیا ہے تو اس کے لیے انہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے گا‘‘۔
شکاگو کے رہائشی سٹیو کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک احمقانہ الزام ہے۔ امریکہ چوہے بلی کاکھیل کھیلنے سے زیادہ اہم چیزوں پر زیادہ وقت صرف کر سکتا ہے … اور وہ کوئی چوہا نہیں ہیں وہ درحقیقت ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے اس ملک کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے‘‘۔
اس رپورٹ کے لیےکچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سےلیاگیاہے۔