|
نئی دہلی _ پاکستان میں رواں ماہ منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں بھارت کی شرکت کے اعلان کے بعد نئی دہلی کے صحافتی و سفارتی حلقوں میں سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانے والے وفد کی قیادت کریں گے۔
پاکستان میں کسی اجلاس میں بھارت کی شرکت کے فیصلے کے بعد یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ کیا دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر جمی سردمہری کی برف پگھل رہی ہے اور کیا اس دورے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی پیش رفت کا امکان ہے۔
مبصرین ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارتی وزیرِ خارجہ کا پاکستان جانے کا فیصلہ احسن قدم ہے۔
البتہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے واضح کیا ہے کہ ان کا پڑوسی ملک کا دورہ کثیر فریقی اجلاس کے لیے ہے، نہ کہ بھارت پاکستان تعلقات پر تبادلۂ خیال کے لیے۔
بھارت اور پاکستان کے علاوہ چین، روس، ایران، کرغزستان، قزاقستان، تاجکستان اور ازبکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق ایس جے شنکر نے ہفتے کو دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ وہ ایس سی او کے ایک اچھے رکن کی حیثیت سے پاکستان جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ اس طرح کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیرِ اعظم شرکت کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے یہ روایت بدل گئی ہے۔
SEE ALSO: بھارتی وزیرِ خارجہ کا دورۂ پاکستان؛ 'یہ صرف ایس سی او اجلاس تک ہی محدود ہو گا'جے شنکر نے اسلام آباد میں ایس سی او اجلاس کے انعقاد سے متعلق سوال پر کہا کہ بھارت کی طرح پاکستان بھی تنظیم کا رکن ہے اور اس بار اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ پاکستان جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور جب آپ کہیں جاتے ہیں تو پلاننگ کرتے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
واضح رہے کہ بحیثیت وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا۔ اس سے قبل وہ بطور سیکریٹری خارجہ اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔
آخری مرتبہ بھارت کی سابق وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے دسمبر 2015 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کی تھی جو افغانستان کے موضوع پر تھی۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سفارت کار اجے بساریہ کہتے ہیں کہ بھارت کا ایس سی او اجلاس میں ایس جے شنکر کو بھیجنے کا فیصلہ جرات مندانہ قدم ہے۔
اجے بساریہ اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں اور انہوں نے 'ہندوستان ٹائمز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے جے شنکر کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کر کے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اشارہ دیا ہے اور اب گیند پاکستان کی کورٹ میں ہے۔ اسے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو طرفہ بامعنی ملاقاتوں کی تجویز پیش کرنی چاہیے۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار سنجے کپور کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں جے شنکر کے دورۂ پاکستان سے باہمی تعلقات میں بہتری کا امکان نظر نہیں آتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سنجے کپور نے کہا کہ بھارت نے ایس سی او کا ایک رکن ہونے کی وجہ سے سربراہی اجلاس میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ کیوں کہ اس کے ارکان سے یہی توقع کی جاتی ہے۔
البتہ دونوں ملکوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ایک دوسرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے۔ اس لیے جے شنکر کے دورۂ پاکستان کا کچھ اور مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے اور حزب المجاہدین کے جنگجو برہان وانی کا حوالہ دے کر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں بھارتی سفارت کار بھاویکا منگلانندن نے جواب دیتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا اور بھارت میں متعدد دہشت گرد حملوں کے لیے اسے ذمہ دار قرار دیا۔
'پاکستان تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرے'
پاکستان بھارت کے دہشت گردی کے الزامات کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متعدد آپریشن کیے ہیں۔
گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی میں ایک دوسرے پر الزامات کے بعد اب رواں ماہ بھارت کے وزیرِ خارجہ اسلام آباد کا دورہ کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان، بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کی اُمید: 'بھارت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا'سینئر تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ اسلام آباد جانے کے نئی دہلی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ لیکن پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ باہمی رشتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری باجپائی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں باہمی مذاکرات ہوتے تھے۔ لیکن مودی حکومت کی پالیسی ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت تو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہی تھا۔ اسی لیے اس نے اسے ’موسٹ فیورڈ نیشن‘ (انتہائی مراعات یافتہ ملک) کا درجہ دیا تھا۔
'بھارت روسی دباؤ میں اسلام آباد کا دورہ کر رہا ہے'
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے پاس ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ اگر وہ اجلاس میں شرکت نہ کرتا تو اسے گروپ کے ایک اہم رکن روس کے ساتھ اس کے ناروا سلوک کے طور پر دیکھا جاتا۔
سنجے کپور بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت روس کے شدید دباؤ میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کر رہا ہے۔
بھارت نے 2020 میں اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ وہ اجلاس ورچوول ہوا تھا۔ اس میں پاکستان کی نمائندگی خارجہ امور سے متعلق پارلیمانی سیکریٹری نے کی تھی۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کا آخری اعلیٰ سطح کا دورہ اگست 2016 میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کیا تھا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون تنظیم ’سارک‘ کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس سے قبل 2015 میں وزیرِ خارجہ سشما سوراج کے دورۂ اسلام آباد سے چند روز بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی افغانستان کے راستے لوٹتے وقت اچانک پاکستان رک گئے تھے۔ انہوں نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد پیش کی تھی۔
مودی نہ صرف پہلی مرتبہ پاکستان آئے تھے بلکہ وہ دورہ غیر سرکاری اور 11 سال بعد کسی بھارتی وزیرِ اعظم کا پاکستان کا دورہ تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے باوجود پاکستان کی جانب سے باہمی مذاکرات کی تجدید کا اصرار کیا جاتا رہا ہے لیکن بھارت کا مؤقف ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔