بھارت کی ریاست پنجاب کی پولیس تین روز سے خالصتان کے حامی اور علیحدگی پسند گروپ ’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ کو تلاش کر رہی ہے۔ اس دوران ان کے 100 سے زائد معاونین اور حامیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ہفتے کو پولیس نے ضلع جالندھر میں ایک گاڑی روکی اور امرت پال کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن پولیس کے مطابق وہ چکمہ دے کر ڈرامائی انداز میں فرار ہو گئے۔ پولیس نے انہیں مفرور قرار دے دیا ہے۔
جالندھر کے پولیس کمشنر گوردیپ سنگھ چہل کے مطابق یہ چور سپاہی کا کھیل ہے۔ بعض اوقات وہ (ملزم) فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم ان (امرت پال) کو جلد ہی گرفتار کر لیں گے۔
انتظامیہ نے ریاست میں انٹرنیٹ کی سروسز اور میسیجنگ سروسز معطل کر دی ہیں۔ ریاست میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے اتوار کو فروز پور، بٹھنڈہ، بٹالہ، فاضلکا، ہوشیار پور، گورداس پور، موگا اور جالندھر میں فلیگ مارچ کیا۔
پولیس نے فروری میں امرت پال سنگھ کے ایک معاون لو پریت سنگھ کو گرفتار کیا تھا۔ ان کو رہا کرانے کے لیے امرت پال اور ان کے ساتھیوں نے 23 فروری کو اجنالہ تھانے پر حملہ کیا تھا۔
امرت پال اور پولیس کے درمیان مذاکرات کے بعد پولیس نے لو پریت کو رہا کر دیا تھا۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تھانے تک پہنچے والے اپنے ہاتھوں میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب لیے ہوئے تھے جس کے احترام میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے بعد ہی سے پولیس امرت پال اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔
SEE ALSO: امرتسر میں سکھوں کا پولیس اسٹیشن پر دھاوا؛ 'گرو گرنتھ کے احترام میں کارروائی نہیں کی'امرت پال سنگھ کے چچا کی گرفتاری
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ امرت پال کے چچا ہرجیت سنگھ اور ڈرائیور ہرپریت سنگھ نے پیر کو جالندھر کے میہت پور میں خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ہرجیت سنگھ اور ان کے بھتیجے ایک ہی گاڑی میں سوار تھے جب کہ پولیس کے گاڑی روکنے پر دونوں فرار ہو گئے۔
ہرجیت سنگھ نے پولیس کو بتایا کہ فرار ہونے کے بعد دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے۔
پولیس نے مذکورہ گاڑی اور کئی دیگر مقامات سے ہتھیاروں کی برآمدگی کے بعد امرت پال کے خلاف آرمز ایکٹ کے تحت رپورٹ درج کر لی ہے جب کہ چیک پوسٹ توڑنے اور منافرت انگیز تقریر، اغوا اور دیگر مبینہ جرائم کے سلسلے میں بھی کیس درج کیے گئے ہیں۔
امرت پال کی پولیس کی حراست میں ہونے کا دعویٰ
امرت پال کے والد ترسیم سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے امرت پال کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ ان کے فرار ہونے کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔
انہوں نے اتوار کو مطالبہ کیا کہ پولیس امرت پال کو عدالت میں پیش کرے تاکہ قانونی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے۔ ان کے مطابق ان کے بیٹے نے تشدد کی کال نہیں دی تھی۔
SEE ALSO: ارشدیپ سنگھ کے پروفائل میں' تبدیلی'، بھارت میں وکی پیڈیا نمائندوں کی طلبیجعلی مقابلے میں ہلاکت کا اندیشہ
’وارث پنجاب دے‘ کے قانونی مشیر ایمان سنگھ کھارا نے امرت پال کے والد کے بیان کی تائید کی۔
خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کے مطابق کھارا نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پولیس امرت پال کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دے گی۔
انہوں نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں حبسِ بیجا کی رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔
پنجاب اینڈ ہریانی ہائی کورٹ کے جسٹس این ایس شیکھاوت نے پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور تفصیلات عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔
زیرِ حراست افراد آسام کی جیل منتقل
گرفتار افراد کو ریاست آسام کی ڈبروگڑھ سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے امرت پال کے ایک معاون لوپریت کو رہا کرانے جیسے ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔
مبصرین کے مطابق مبینہ خالصتان نواز علیحدگی پسند تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ اور اس کے سربراہ امرت پال سنگھ کی سرگرمیوں سے ریاست میں ایک بار پھر دہشت گردی کےبڑھنے کا خدشہ ہے۔
ان کے مطابق جس طرح تنظیم کے حامیوں نے ہتھیاروں کے ساتھ اجنالہ پولیس تھانے پر حملہ کیا تھا وہ حکومت اور پولیس کے لیے پریشان کن ہے۔
SEE ALSO: بھارت: ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی پر خالصتان کے جھنڈے کیوں لگائے گئے؟اس واقعے کے بعد مرکزی وزارتِ داخلہ نے دہلی میں ایک اہم اجلاس میں صورتِ حال کا جائزہ لیا تھا جب کہ ریاست پنجاب کی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ امن و قانون کی صورت حال کو بہتر بنائے اور تمام گرفتار شدگان کو شمال مشرق کی ریاستوں کی جیلوں میں رکھا جائے۔
اسی درمیان وزارتِ داخلہ نے پیرا ملٹری فورسز کے ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جی) کو امرت پال کے ملک سے باہر فرار ہونے کے اندیشے کے پیشِ نظر الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
خالصتان کی تحریک دوبارہ منظم ہونے کا شبہ
امرتسر کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار اوم پرکاش سونی کا کہنا ہے کہ امرت پال کی سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ خالصتان کی تحریک کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ جو اسلحہ برآمد کیا گیا ہے اس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اوم پرکاش سونی کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سکھوں کی نصف سے زائد آبادی انتہاپسندی کے خلاف ہے۔ کچھ تھوڑے بہت لوگ ہیں جو امرت پال سنگھ کے حامی ہیں لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
ان کے مطابق پولیس اس تحریک کو ناکام بنا دے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امرت پال کی سرگرمیوں سے خالصتانی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ بھنڈراں والا نے خالصتان کے قیام کے لیے ایک عسکری گروہ تشکیل دیا تھا اور امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے لی تھی۔
اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر بھارت کی فوج نے 1984 میں یکم تا 10 جون کے درمیان ’آپریشن بلیو اسٹار‘ کیا تھا جس میں بھنڈراں والا اور ان کے ساتھیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔اسی برس 31 اکتوبر کو بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو قتل کرکے انتقام لیا تھا۔
SEE ALSO: بھارت: پٹیالہ میں خالصتان مخالف مارچ کے دوران تصادم، چار افراد زخمیامرت پال سنگھ اور جرنیل سنگھ بھنڈراں کے انداز میں مماثلت
اوم پرکاش سونی کا کہنا تھا کہ امرت پال سنگھ بالکل جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کا انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ ان ہی کی مانند اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’وارث پنجاب دے‘ نامی تنظیم ایک انتہاپسند سکھ نوجوان دیپ سدھو نے تشکیل دی تھی۔ ان کی موت کے بعد امرت پال اس کے سربراہ بن گئے۔
ان کے مطابق امرت پال کی عمر 30 برس ہے۔ وہ دبئی میں ملازمت کرتے تھے لیکن واپس آکر انہوں نے تنظیم کی کمان سنبھال لی۔
یاد رہے کہ کسانوں کی تحریک کے دوران جب26 جنوری 2021 کو کسانوں نے دہلی میں ٹریکٹر مارچ کیا تھا تو دیپ سدھو تاریخی لال قلعے کی فصیل تک پہنچے تھے۔ گزشتہ سال فروری میں وہ ہریانہ کے سونی پت میں ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن کے باہر احتجاج
اسی درمیان خالصتان کے حامی افراد نے لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا اور بھارت کا قومی پرچم اتار کر اس کی جگہ پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا جسے بعد میں وہاں سے ہٹا دیا گیا۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے نئی دہلی میں برطانیہ کے سینئر ترین سفارت کار کو طلب کرکے اس پر سخت احتجاج کیا ہے اور لندن میں ہائی کمیشن کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
لندن کے میئر صادق خان نے اس واقعے کو افسوسناک اور نا قابلِ قبول قرار دیا ہے۔
بھارت میں برطانوی سفیر الیکس ایلس نے بھی اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے جب کہ برطانیہ کے وزیرِ مملکت برائے خارجہ لارڈ طارق احمد نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے پر سکتے ہیں اور حکومت ہائی کمیشن کی سیکیورٹی کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
ادھر خالصتان کے حامیوں نے آسٹریلیا کے شہر برِسبن میں اتوار کو خالصتان کے حوالے سے ایک ریفرنڈم ہوا تھا جس میں رپورٹس کے مطابق زیادہ لوگ نہیں آئے۔
اس ووٹنگ سے قبل وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانیز کے سامنے آسٹریلیا میں مندروں پر حملے کے مبینہ واقعات اور علیحدگی پسند سکھوں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔