گولڈن جوبلی تقریبات کے لیے بھارتی صدر کی ڈھاکہ آمد، 'بھارت بنگلہ دیش کے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا ہے'

بھارت کے صدر رام ناتھ کووند تین روزہ سرکاری دورے پر بدھ کو ڈھاکہ پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی صدر 16 دسمبر کو بنگلہ دیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔

رپورٹس کے مطابق انہوں نے ڈھاکہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے ساور کے مقام پر واقع قومی شہید یادگار جا کر 1971 کی جنگ میں مارے جانے والے بھارتی اور بنگلہ دیشی جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد اور وزیرِ خارجہ اے کے عبد المومن نے ان سے ملاقات کی۔ وہ اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب محمد عبد الحامد کے ساتھ وفود کی سطح کے مذاکرات بھی کریں گے۔

ان کے دورے سے ایک روز قبل بھارت کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا نے نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی صدر کا یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

’بھارت بنگلہ دیش رشتوں میں کوئی تعطل نہیں‘

ہرش وردھن نے بھارت بنگلہ دیش رشتوں میں کسی بھی قسم کے تعطل کو رد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی رشتے تاریخ و ثقافت اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات کی بنیاد پر قائم ہیں۔

انہوں نے رواں برس اکتوبر میں ہندوؤں کے درگا پوجا تہوار کے موقع پر بنگلہ دیش میں ہونے والے اقلیت مخالف تشدد اور بنگلہ دیش کی ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) پر حال ہی میں امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے متعلق سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت کی ’پڑوسی فرسٹ‘ پالیسی کا مرکزی ستون ہے۔ یہ بھارت کی ’ایکٹ ایسٹ‘ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔

تاریخی تناظر

خیال رہے کہ 1971 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کر کے بھارت میں پناہ لے لی تھی۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بھارت نے وہاں کی حکومت کے قیام میں کافی مدد دی تھی۔ اس نے منتخب حکومت کے ساتھ سفارتی رشتے استوار کیے تھے اور اندرا گاندھی نے 17 مارچ 1972 کو بنگلہ دیش کا دورہ کر کے باضابطہ طور پر بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن نے جغرافیائی حقائق کے پیشِ نظر بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے لیکن تقریباً ساڑھے تین برس کے بعد ان کی ہلاکت نے باہمی رشتوں پر منفی اثر ڈالا۔ فوجی حکومت اور پھر سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کی حکومت کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں سرد مہری آتی رہی۔

'شیخ حسینہ کے دور میں باہمی رشتے پروان چڑھے'

لیکن جب 1996 میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہوئی اور شیخ حسینہ واجد وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہوئیں تو ایک بار پھر دونوں ملکوں کے رشتے پروان چڑھنے لگے۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان چار ہزار کلو میٹر کی طویل سرحد ہے۔ بھارت کی کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ یہ سب سے بڑی سرحد ہے۔

ان برسوں کے درمیان مختلف شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بالخصوص سیکیورٹی، تجارت، بجلی، توانائی، نقل و حمل، سائنس و ٹیکنالوجی، دفاع، میری ٹائم وغیرہ شعبوں میں باہمی تعاون میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔

دونوں ملکوں میں ایک اہم پیش رفت ’لینڈ بارڈر ایگری منٹ‘ تھا جس کے تحت اراضی کا تبادلہ ہوا۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان برسوں میں فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا جھکاؤ بھارت کی جانب رہا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

شہریت بل اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن پر اختلافات

تاہم کئی امور ایسے بھی ہیں جو باہمی رشتوں میں رخنہ بنے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کو منظوری، آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی تیاری اور بھارتی رہنماؤں کی جانب سے بنگلہ دیش سے مبینہ بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کے بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے سے متعلق بیانات کو بنگلہ دیش میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔

جب 2019 میں بھارتی پارلیمنٹ نے سی اے اے کی منظوری دی تھی تو اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے وزیِر خارجہ اے کے عبد المومن اور وزیرِ داخلہ اسد الزماں خان نے بھارت کا مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا تھا۔

بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے سی اے اے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی تھی۔ لیکن بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی اس یقین دہانی کے بعد اس کا بنگلہ دیش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، انہوں نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔

’باہمی رشتوں کی بنیاد اعتماد پر قائم‘

سینئر تجزیہ کار دیودیپ پروہت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات باہمی اعتماد پر قائم ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارت کا جو کردار تھا اس کے پیشِ نظر دونوں میں دوستانہ اور جذباتی رشتے ہیں۔

ان کے مطابق بھارت بنگلہ دیش کے لیے ایک بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے بنگلہ دیش کی بھارت سے کہیں زیادہ توقعات ہیں۔ لیکن بھارت ان توقعات پر پورا نہیں اُترا۔

ان کے خیال میں باہمی رشتوں میں کچھ مسائل موجود ہیں۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو متنازع رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت کے سیاست دانوں کے کچھ بیانات بنگلہ دیش کے عوام کے لیے تکلیف دہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بنگلہ دیش نے بہت ترقی کر لی ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں تیزی سے ابھرنے والی معیشت ہے۔ بھارت کو اس کے ساتھ اس کے شایان شان سلوک کرنا چاہیے۔

مبصرین کے مطابق جب بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر اقلیت مخالف تشدد ہوا تھا تو اس پر بھارت کے بعض سیاست دانوں بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے سخت ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اسے بنگلہ دیش میں اپنے داخلی امور میں مداخلت تصور کیا گیا تھا۔

اس کے بعد ہی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں بھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو جس کا یہاں کی اقلیتوں پر اثر پڑے۔

بھارت کی جانب سے ان کے بیان پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا البتہ بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے تشدد پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ستائش کی گئی تھی۔

دیودیپ پروہت کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے بیان پر بھارت کی جانب سے کوئی زیادہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا گیا لیکن بھارتی وزارتِ خارجہ کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ہمیں حسینہ کے لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔

یودیپ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اگر وہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات بحال کر رہا ہے تو اس پر بھارت کے لوگوں کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔

ان کے مطابق بنگلہ دیش میں چین کی سرگرمیاں بڑھی ہیں لیکن یہ کہنا کہ بنگلہ دیش چینی کیمپ میں جا رہا ہے بہت مشکل ہے۔ ان کے خیال میں چین کے ساتھ بنگلہ دیش کا رشتہ تجارتی ہے۔ جب کہ بھارت کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی ہے۔ بنگلہ دیش چین کے قریب کتنا ہی چلا جائے لیکن وہاں کے سیاست داں علاج معالجے کے لیے بھارت ہی آئیں گے۔