حجاب تنازع: کرناٹک میں بعض تعلیمی ادارے کھول دیے گئے، کالجز بدستور بند

فائل فوٹو

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب تنازع کے سبب بند ہونے والے بعض تعلیمی ادارے پیر سے دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔

کرناٹک میں گزشتہ ہفتے حجاب یا برقع کرنے والی طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی پر تنازع شروع ہوا تھا۔اس پابندی کو بھارت میں مسلمان خود کو دیوار سے لگانے کے مترادف سمجھ رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے واقعات کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اہم ریاستوں میں انتخابی مہم سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پیر کو ریاست کرناٹک کے ضلع اوڈوپی میں اس تعلیمی ادارے کے باہر پولیس اہلکار تعینات نظر آئے جہاں سے اس سارے معاملے نے جنم لیا تھا۔

پری یونیورسٹی کالج میں طالبات گلابی یونیفارم پہنے داخل ہو ئیں جب کہ ان میں لگ بھگ ایک درجن طالبات ایسی بھی نظر آئیں جنہوں نے اسکارف پہنے ہوئے تھے۔

انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کے گرد پانچ یا اس سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

SEE ALSO: بھارت میں حجاب تنازع کب اور کیسے شروع ہوا؟

ریاست کرناٹک کے احتجاج سے متاثرہ اضلاع میں پرائمری اور ہائی اسکول تو کھول دیے گئے ہیں البتہ کالجز میں کلاسز بدستور معطل ہیں۔

ریاستی انتظامیہ نے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہائی کورٹ کے ان احکامات کے بعد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کے مزید احکامات تک طلبہ کلاس رومز میں حجاب یا کیسری رومال سمیت کوئی بھی مذہبی لباس پہن کر نہیں آئیں گے۔

کرناٹک کے چھوٹے سے قصبے اوڈوپی میں گزشتہ برس 31 دسمبر کو چھ مسلم طالبات کو جب حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخل ہونے سے روکا گیا تھااس کے بعد یہ معاملہ بھارت میں بڑے تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

اس سرکاری کالج کی انتظامیہ نے 31 دسمبر کو حجاب پہن کر آنے والی چھ مسلم طالبات کو یہ کہہ کر کلاس رومز میں داخلے سے روک دیا تھا کہ وہ کالج کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کر رہی ہیں البتہ ان طالبات کا اصرار تھا کہ وہ اپنے عقائد کے تحت حجاب پہن کر تعلیم کے حصول کے لیے آ سکتی ہیں۔

SEE ALSO: بھارت: حجاب اور کیسری رومال آمنے سامنے, مذہبی آزادی پر نئی بحث

یہ معاملہ ریاست کرناٹک سے ہوتا ہوا اب دیگر ریاستوں میں تنازع کی صورت اختیار کر چکا ہے اور نہ صرف مقامی ذرائع ابلاغ بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی بھارت میں حجاب تنازع موضوع بحث ہے۔

کرناٹک کے جس تعلیمی ادارے سے اس تنازع نے جنم لیا تھا اس کالج میں 600 طالبات زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے 60 مسلمان ہیں اور ان میں 10 کے قریب طالبات حجاب پہنتی ہیں۔

تین جنوری کو کرناٹک کے ضلع کوپا میں ہندو طلبہ نےاحتجاج کیا تھا جس کے دوران وہ گلے میں کیسری رومال ڈالے ہوئے تھے۔ ان مظاہرین کا مؤقف تھا کہ اگر حجاب کی اجازت دی جائے گی تو کیسری رومال کی بھی اجازت دی جائے۔

کیسری رنگ بھارت میں ہندو مذہب سے جوڑا جاتا ہے اور قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا جھنڈا بھی اسی رنگ کا ہے۔

حجاب اور کیسری رومال کا معاملہ رفتہ رفتہ بڑھتا رہا اور فروری کے اوائل میں مختلف شہروں میں حجاب کی حمایت اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

پیر کو تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد ایک طالبہ عائشہ امتیاز نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کلاس روم میں جانے سے قبل حجاب اتارنے کا حکم تذلیل ہے۔ ان کے بقول وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کے مذہب پر سوال اٹھایا جا رہا ہے اور ان کی اس جگہ تذلیل کی جا رہی ہے جس کو وہ تعلیم کا مندر سمجھتی ہیں۔

SEE ALSO: حجاب تنازع: 'یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے'، امریکی تشویش پر بھارت کا ردِعمل

دوسری جانب اوڈوپی کے ایک سرکاری افسر پردیپ کروڈیکر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باقی تعلیمی اداروں میں کلاسز اس وقت شروع کی جائیں گی جب عدالت کے مزید احکامات یا حکومت کا کوئی فیصلہ سامنے آئے گا۔

یاد رہے کہ تعلیمی اداروں میں حجاب کرنے کا معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جہاں تین رکنی بینچ اس معاملے پر سماعت کر رہا ہے۔

مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے حجاب تنازع پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے یونیفارم اور نظم و ضبط کو فرقہ وارانہ رنگ دینا بھارت کی مشترکہ ثقافت کے خلاف ایک سازش ہے۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی عزت نفس بھارت کی ثقافت کا حصہ ہے۔

ریاست کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی کو تعلیمی اداروں میں اپنے مذہب کی پابندی کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ ہر طالب علم کو کالج کے یونیفارم اور نظم و ضبط کا پابند ہونا ہوگا۔

خیال رہے کہ بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب چالیس کروڑ ہے جس میں سے 80 فی صدہندو ہیں جب کہ مسلمانوں کی آبادی تقریباََ 13 فی صد ہے۔

اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔