بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ایک عدالت نے جمعرات کو طالبعلموں سے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک مذہبی شناخت کا حامل کوئی بھی لباس نہ پہنیں جب تک حجاب پر پابندی کے خلاف فیصلہ نہیں آ جاتا۔
بھارت کے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ریتو راج اواستھی کے بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’ ہم اس معاملے پر فیصلہ دیں گے۔ لیکن جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، کسی بھی طالبعلم کو مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے‘
عدالت نے ریاست کے اسکول اور کالجوں کو بھی کھولنے کا حکم دیا جو صوبے کے وزیراعلی نے اس ہفتے پھوٹنے والے مظاہروں پر تین دن کے لیے بند کر دیے تھے۔
بھارت میں حجاب کا معاملہ کب اور کیسے شروع ہوا، اس بارےمیں بھارت سے وائس آف امریکہ کے لیے سہیل انجم نے تفصیلی پس منظر اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے۔
حجاب تنازع کب اور کیسے شروع ہوا؟
ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبے اوڈوپی میں گزشتہ برس کے آخری روز 31 دسمبر کو چھ مسلمان طالبات کو جب حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخلے سے روکا گیا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ بھارت میں ایک بڑے تنازع کی صورت اختیار کر جائے گا۔
گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 31 دسمبر کو حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخلے کی خواہش مند چھ مسلمان طالبات کو یہ کہہ کر کلاس رومز میں داخلے سے روک دیا کہ وہ کالج کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ لیکن ان مسلمان طالبات کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے تحت حجاب پہن کر کلاس رومز میں آ سکتی ہیں۔
بس یہ ہی وہ اختلاف تھا جو بھارتی ریاست کرناٹک سے ہوتا ہوا اب دیگر ریاستوں میں ایک تنازع کی صورت میں پھیل چکا ہے، اور نہ صرف مقامی ذرائع ابلاغ بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی بھارت میں حجاب تنازع موضوع بحث ہے۔
بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں اب یہ بحث جاری ہے کہ یہ معاملہ بھارت کے سیکولر تشخص کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس معاملے پر نہ صرف کرناٹک بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
بدھ کو دار الحکومت دہلی کے شاہین باغ، تیلنگانہ کے حیدرآباد، مدھیہ پردیش کے بھوپال اور مغربی بنگال کے کلکتہ میں مسلم خواتین نے حجاب کی حمایت میں مظاہرے کیے اور ریلی نکالی۔
یاد رہے کہ شاہین باغ وہی علاقہ ہے جو شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کے خلاف احتجاج اور دھرنے کی وجہ سے عالمی ذرائع ابلاغ میں موضوع گفتگو بنا رہا تھا۔
حجاب تنازع نہ صرف کرناٹک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے بلکہ بدھ کو بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس پر گرما گرم بحث بھی ہوئی۔
پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اور حکومت آمنے سامنے
ایوان بالا راجیہ سبھا میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن ایل ہنومنتھیا نے کہا کہ دستور کی دفعہ 14 اور 25 میں شہریوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے۔ تاہم حکمراں بینچز میں بیٹھے بعض اراکینِ پارلیمنٹ نے ایل ہنومنتھیا کو ٹوک دیا اور وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔
ایوان زیریں لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) کی سپریا سولے نے اس معاملے کو اٹھایا اور وزیر داخلہ امت شاہ سے اس معاملے پر پالیسی بیان دینے کا مطالبہ کیا۔
لیکن حکمراں جماعت کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی جس پر کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
حجاب تنازع میڈیا میں کب موضوع بحث بنا؟
گزشتہ سال دسمبر کے اواخر میں ریاست کرناٹک کے اسکول اور کالجز کھلے تو ساحلی علاقے کے قصبے اوڈوپی کی کچھ مسلم طالبات نے شکایت کی کہ انھیں حجاب میں کلاس رومز میں نہیں جانے دیا جار ہا ہے۔
مذکورہ کالج میں 600 طالبات زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے 60 مسلمان ہیں اور ان میں 10 کے قریب طالبات حجاب پہنتی ہیں۔
کرناٹک سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی تنویر احمد کہتے ہیں کہ اوڈوپی میں مسلمانوں کی آبادی 20 فی صد سے زائد ہے اور وہاں مالز اور دیگر عوامی مقابات پر برقع پوش خواتین اکثر نظر آتی ہیں۔
اُن کے بقول حالیہ برسوں کے دوران مسلم خواتین میں برقع پہننے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق تین جنوری کو کرناٹک کے کوپا ضلع میں ہندو طلبہ نے جو کہ گلے میں کیسرانی رومال ڈالے ہوئے تھے حجاب کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ اگر حجاب کی اجازت دی جائے گی تو کیسرانی رومال کی بھی اجازت دی جائے۔
خیال رہے کہ کیسرانی رنگ بھارت میں ہندو مذہب سے جوڑا جاتا ہے اور بھارت کی قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا جھنڈا بھی اس رنگ کا ہے۔
یہ معاملہ رفتہ رفتہ بڑھتا رہا اور جنوری کے اواخر اور فروری کے اوائل میں مختلف شہروں اور قصبوں میں حجاب کی حمایت اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
معاملے کی شدت کے پیشِ نظر ریاستی حکومت نے چھ فروری کو کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کا حوالہ دے کر تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی۔
جب بعض حلقوں کی جانب سے اس حکم نامے کی پرزور مخالفت کی جانے لگی تو وزیرِ اعلیٰ بسو راج بومئی نے آٹھ فروری کو تمام تعلیمی اداروں کو تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
معاملہ عدالت میں
بعض مسلم طالبات کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں متعدد پٹیشنز داخل کی گئیں اور اپیل کی گئی کہ چونکہ حجاب پہننا ان کا بنیادی حق ہے لہٰذا اس کی اجازت دی جائے۔
ہائی کورٹ نے دو روز کی سماعت کے بعد جمعرات کو یہ معاملہ بڑے بینچ کے حوالے کر دیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے اسی روز تین رکنی بینچ تشکیل دیا۔
مسلمان طالبہ مسکان کا نعرہ
اسی دوران آٹھ فروری کو ریاست کرناٹک مانڈیا کے ایک کالج میں ایک مسلم طالبہ کو گلے میں کیسرانی رومال لٹکائے ہوئے ہندو طلبہ کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ لوگ جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کی جانب بڑھنے لگے جس کے جواب میں طالبہ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔
اس بارے میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ کالج کے پرنسپل اس طالبہ کو بحفاظت کالج کی عمارت میں لے جا رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام مسکان ہے اور وہ بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے۔
مسکان کے اس اقدام کو مسلم حؒلقوں میں بہادری کی علامت سمجھا گیا اور پاکستان میں بھی مسکان کی ہمت اور دلیری کی داد دی گئی۔ البتہ ریاستی حکام کا دعویٰ ہے کہ جب مسکان نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تو اس وقت بظاہر ہندو طلبہ نے اُن کا گھیراؤ نہیں کیا تھا۔
ماضی میں حجاب پر ہونے والے تنازعات
ماہرین کے مطابق کرناٹک میں پہلی مرتبہ حجاب کے معاملے پر تنازع نہیں ہوا۔ بلکہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران کئی مواقع پر یہ معاملہ مقامی سطح پر اُٹھتا رہا ہے۔ البتہ کالج کی سطح پر ہی اسے حل کر لیا جاتا تھا۔
سید تنویر احمد کے مطابق 2014 کے بعد سے کالج انتظامیہ نے اُن کے بقول سیاسی دباؤ پر اب اپنا رویہ سخت کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان طالبات کی جانب سے اب زیادہ ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں حکمراں جماعت کے ناقدین یہ الزامات عائد کرتے ہیں کہ 2014 میں جب سے وزیرِ اعظم نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں، مذہب کے نام پر تفریق بڑھ رہی ہے جس کی وجہ ریاستی سطح پر انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
البتہ نریندر مودی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور اس کا یہ موؐقف رہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
تنویر احمد کے بقول کرناٹک کے دوسرے علاقوں میں بھی مسلم طالبات برقعے میں کالج جاتی ہیں اور بنگلور کے متعدد کالجوں میں مسلم طالبات ہر فلور پر نماز بھی ادا کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں کرناٹک کے مختلف علاقوں میں مسلم کمیونٹی نے اپنا تشخص اُجاگر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جسے ہندو تنظیموں نے پسند نہیں کیا۔
سید تنویر کہتے ہیں کہ جب اوڈوپی کی چھ مسلم طالبات نے حجاب میں کلاس رومز میں جانے پر اصرار کیا تو ہندو تنظیموں کو اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کا ایک موقع مل گیا لہٰذا کئی ہندو تنظیمیں حجاب کی مخالفت میں سرگرم ہو گئیں۔
بنگلور کے ایک اور سینئر تجزیہ کار ایم اے سراج اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس علاقے میں پہلے سے ہی فرقہ واریت رہی ہے اور منظم منصوبے کے تحت ایک چھوٹے سے واقعے کو بڑا بنا دیا گیا۔ ان کے خیال میں دائیں بازو کی طاقتوں نے اوڈوپی میں حجاب پر پابندی کے بہانے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا ایک تجربہ کیا۔
بعض ہندو اور مسلم تنظیموں کا کردار
باوثوق ذرائع کے مطابق جب اوڈوپی کے کالج میں مذکورہ تنازع پیدا ہوا تو دائیں بازو کی متعدد تنظیمیں جیسے کہ بی جے پی کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)، ہندو سینا اور دیگر تنظیمیں اس معاملے میں کود پڑیں۔
کرناٹک کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو تنظیموں کی سرگرمی کو دیکھ کر کیرالہ سے سرگرم مسلمانوں کی ایک سخت گیر جماعت پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی سیاسی شاخ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) اور اس کی طلبہ شاخ کیمپس فرنٹ آف انڈیا بھی میدان میں آگئیں۔
ذرائع کے مطابق ہندو تنظیمیں کیسرانی رومالوں کی سیاست کرنے لگیں اور مذکورہ مسلم تنظیمیں برقعے او رحجاب کی۔
ایم اے سراج کے بقول یہ افواہ بھی گرم ہے کہ بنگلور کی ایک فیکٹری میں لاکھوں کی تعداد میں کیسرانی دوشالے تیار کیے گئے ہیں جو ہندو طلبہ کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق بعد میں طلبہ سے وہ دوشالے واپس لے لیے جاتے ہیں۔
حجاب تنازع کا سیاسی پہلو
مبصرین کے مطابق ریاست کی بی جے پی حکومت میں اندرونی چپقلش چل رہی ہے۔ حکومت کے خلاف عوام میں ناراضگی ہے۔ چند ماہ کے اندر مقامی انتخابات اور اگلے سال مارچ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ جن میں بی جے پی بظاہر مشکلات سے دوچار ہے۔ لہٰذا یہ تنازع بی جے پی کے ہاتھ میں ایک مؤثر ہتھیار بن کر آیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹے سے معاملے کو بڑا بنا دیا گیا۔ بی جے پی ہر حال میں اسے زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی پہلے سے ہی جنوبی بھارت میں قدم جمانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرناٹک پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس اور جنتا دل ایس کے اتحاد کو کامیابی ملی تھی لیکن کچھ دنوں کے بعد بی جے پی نے کانگریس اور جنتا دل ایس کے 15 ارکان اسمبلی کو ساتھ ملا کر یہاں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔
بعض مسلم جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مقامی سطح پر مسلمانوں سے ملاقات کرکے انہیں معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
بنگلور کے مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا سنجیدہ طبقہ اس معاملے کے طول پکڑنے سے خوش نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عدالت کو ہی فیصلہ کرنے دیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے اسے تسلیم کیا جائے۔
ان کے مطابق اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بالخصوص ساحلی علاقوں میں مسلمان کافی خوشحال ہیں اور لڑکیوں میں تعلیم کا زیادہ رواج ہے اس لیے وہ اسے اپنے حق کی لڑائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آئین نے ہر شہری کو اپنے مذہب کی پابندی کا حق دیا ہے تو پھر مسلم طالبات کو حجاب سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
اب یہ تنازع اترپردیش میں بھی پہنچ گیا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے مراد آباد میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک حکومت پر تنقید کی اور مسلم طالبات کی حجاب کی لڑائی کی حمایت کی۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں بھی اس تنازعے کے لیے ریاستی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا۔
بی جے پی حکومت کا مؤقف
مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے حجاب تنازع پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے یونیفارم اور نظم و ضبط کو فرقہ وارانہ رنگ دینا بھارت کی مشترکہ ثقافت کے خلاف ایک سازش ہے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی عزت نفس بھارت کی ثقافت کا حصہ ہے۔
ریاست کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ کسی کو تعلیمی اداروں میں اپنے مذہب کی پابندی کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ ہر طالب علم کو کالج کے یونیفارم اور نظم و ضبط کا پابند ہونا ہوگا۔
دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی نے سہارنپور میں ایک انتخابی ریلی میں حجاب تنازع کے تناظر میں کہا کہ کچھ لوگوں کو مسلم خواتین کی ترقی کو روکنے کا ایک راستہ مل گیا ہے۔
مبصرین اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ حل نہیں ہوا تو یو پی انتخاب میں اسے اور اچھالا جائے گا جس سے بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔