"عبدالصمد نے گھر پر پرندے پال رکھے ہیں اور اس دن وہ اپنے کبوتروں کو تلاش کرتے ہوئے ایل او سی عبور کرکے بھارتی کشمیر کی طرف چلا گیا۔ وہ بچہ ہے اسے یہ احساس نہیں ہوا ہو گا کہ وہ دوسری طرف جا رہا ہے۔"
یہ کہنا ہے نویں جماعت کے طالب علم عبدالصمد کے نانا محمد اسلم کا جن کا نواسہ 25 نومبر 2021 کو پاکستان اور بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو غلطی سے عبور کر کے بھارتی کشمیر میں داخل ہو گیا تھا۔
بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ضلع پونچھ میں بھارتی فوج نے عبدالصمد کو اپنی تحویل میں لیا اور بعد ازاں جموں کشمیر پولیس کے حوالے کر دیا۔ بعدازاں پولیس نے 'ایگریس اور انٹرنل موومنٹ کنٹرول آرڈیننس' کی خلاف ورزی کے تحت عبدالصمد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔
بھارتی کشمیر میں ممنوعہ علاقوں میں غیر متعلقہ افراد جو اپنی موجودگی کو جواز پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اُن پر اس آرڈیننس کے ذریعے مقدمہ چلایا جاتا ہے جس کے تحت کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا دی جاتی ہے۔
عبدالصمد کا خاندان پاکستان کے زیر ِا انتظام کشمیر کے ضلع راولاکوٹ کے سرحدی گاؤں تیتری نوٹ میں مقیم ہے اور ان کا گھر ایل او سی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔
دو ماہ سے زائد عرصے سے بھارت کی تحویل میں موجود 14 سالہ عبدالصمد کے نانا محمد اسلم نے بھارت اور پاکستان کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کے نواسے کی جلد واپسی ممکن بنائی جائے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ طالب علم کی گرفتاری کا معاملہ بھارتی حکام کے سامنے اٹھایا ہے جس کی واپسی کی کوششیں جاری ہیں۔
عبدالصمد کے 65 سالہ نانا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 25 نومبر کو عبدالصمد اپنی نانی کو گاڑی میں بٹھانے گیا اور واپس گھر نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب تک واپس نہ لوٹنے پر تشویش بڑھی اور اس کی تلاش شروع کر دی مگر ہر جگہ تلاش کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
انہوں نے کہا کہ رات آٹھ بجے کے قریب سرحد پر مقامی سطح پر تعینات پاکستان کی فوج نے انہیں اطلاع دی کہ ان کا نواسہ غلطی سے ایل او سی عبور کر گیا ہے۔
محمد اسلم نے بتایا کہ پاکستان کی فوج کو بھارتی فوج کی جانب سے ہاٹ لائن پر بتایا گیا تھا کہ سرحد پار کرنے پر عبدالصمد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مقامی پولیس اور فوجی حکام اگلے روز اس بارے میں معلومات حاصل کرنے ان کے پاس آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایل او سی پر چیک پوسٹوں کے قریبی علاقوں میں تو خاردار تاریں لگی ہوئی ہیں تاہم دریا کے قریبی علاقے کھلے ہوئے ہیں جہاں سے مویشی وغیرہ اکثر ایل او سی کے اُس پار چلے جاتے ہیں۔
محمد اسلم نے کہا کہ دو ماہ سے زائد عرصہ گز ر چکا ہے کہ وہ بھارتی حکام کی تحویل میں ہے اور ان کے خاندان والوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ ان کا بچہ کس حال میں ہے۔
عبدالصمد کے ماموں محمد ارباب کہتے ہیں کہ وہ ہر روز انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں مگر اب تک کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کیسا ہے اورنہ ہی اس سے ٹیلی فون پر رابطہ ہو سکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ یہی کہتی ہے کہ وہ عبدالصمد کی واپسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں تاخیر ان کے خاندان کے لیے اذیت ناک ثابت ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عبدالصمد کی پرورش والدہ کی وفات کے بعد تین ماہ کی عمر سے اس کی نانی خدیجہ نے کی اور بچے کی واپسی نہ ہونے کے باعث ان کی صحت بگڑتی جا رہی ہے۔
محمد ارباب نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بھارت کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کے بھانجے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جلد رہا کیا جائے تاکہ اس کی گھر واپسی ہوسکے۔
عبدالصمد سے قبل بھی کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کو غلطی سے عبور کرنے کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ایل او سی کے کئی مقامات پر دریائے نیلم دونوں جانب کے کشمیر کو تقسیم کرتا ہے جب کہ بھارت کی جانب سے کئی مقامات پر باڑ لگانے کے باوجود اب بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں سے لوگ غلطی سے ایل او سی عبور کر لیتے ہیں۔
کئی واقعات میں دونوں اطراف کی سیکیورٹی فورسز پوچھ گچھ کے بعد ان افراد کو واپس بھیجتی رہی ہے، تاہم عبدالصمد کے اہلِ خانہ کا انتظار طویل ہو گیا ہے۔
گزشتہ برس اگست میں اسی پونچھ سیکٹر میں بھارت نے پاکستان سے ایل او سی عبور کرنے والے نو سے 17 سال کی عمر کے تین لڑکوں کو واپس بھجوا دیا تھا۔ اسی طرح دسمبر 2020 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں غلطی سے بھارتی کشمیر پہنچ گئی تھیں جنہیں واپس بھیج دیا گیا تھا۔
دسمبر 2021 میں سماعت سے محروم ایک شخص پاکستانی کشمیر بھجوایا گیا تھا جو 10 برس قبل بھٹک کر بھارتی کشمیر میں داخل ہو گیا تھا۔
کیا حکومت کے پاس اعداد و شمار ہیں؟
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صحافی جلال الدین مغل بتاتے ہیں کہ حکومت کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں جن سے اس نوعیت کے واقعات کی اصل تعداد کا اندازہ ہو سکے۔
ان کے بقول مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 26 فروری 2021 کو سیز فائر معاہدے کی تجدید کے بعد سے لے کر اب تک آٹھ مختلف واقعات میں خواتین اور کم سن بچیوں سمیت ایک درجن کے قریب شہریوں نے غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کی۔
انہوں نے بتایا کہ غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کرنے والوں میں سے بیشتر کو ضروری کارروائی کے بعد واپس کر دیا گیا تاہم عبدالصمد سمیت کم از کم تین افراد ابھی گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔
ستمبر 2020 میں چکوٹھی کے علاقے میں غلطی سے ایل او سی کی جانب جانے والے نفسیاتی مرض کے شکار ایک نوجوان کو بھارتی فوج نے گولی مار دی تھی۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ بھارتی کشمیر سے غلطی سے پاکستانی کشمیر میں داخل ہونے والے افراد کو بھی واپس بھجوا دیا جاتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 2017 میں دو کشمیری نوجوانوں ارفاز یوسف اور بلال احمد کو بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا۔