بھارت میں کرونا کیسز اور اموات میں ہونے والے روز بہ روز اضافے کی وجہ سے حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس بحران کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی مبینہ بدانتظامی کو ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر اپنی شکایت پوسٹ کرتا ہے تو حکومت اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ اگر ایسے کسی شہری کو ہراساں کیا گیا تو اسے توہینِ عدالت تصور کیا جائے گا۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایک شہری اور ایک جج کی حیثیت سے یہ بات میرے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اگر شہری سوشل میڈیا پر اپنی شکایات پوسٹ کرتے ہیں تو ان کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ان کی آواز سننا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن طلب کرنے والے کسی شخص کو ہراساں کیا گیا تو یہ توہینِ عدالت ہوگی۔
واضح رہے کہ بھارت میں حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر سے کرونا وائرس کی روک تھام سے متعلق حکومتی کارکردگی پر تنقیدی پوسٹس ہٹانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت ایک انسانی بحران سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی اسپتالوں میں بستر دستیاب نہیں ہو رہے ہیں۔
جسٹس چندر چوڑ کے مطابق شہریوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر اپنی شکایات پوسٹ کرنے کو غلط اور بے بنیاد نہیں سمجھا جا سکتا۔
واضح رہے کہ جمعے کو کرونا کے ریکارڈ تین لاکھ 86 ہزار 452 کیسز سامنے آئے جب کہ کرونا سے مزید 3498 افراد کی موت ہوئی۔
عالمی میڈیا میں مودی حکومت پر تنقید
مختلف ممالک سے امدادی و طبی اشیا اگرچہ دہلی پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔ البتہ اب بھی دارالحکومت دہلی سمیت متعدد شہروں میں اسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن اور ضروری ادویات کی قلت ہے اور چتائیں جلانے کے لیے شمشانوں اور تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ کی تنگی ہے۔
عالمی میڈیا میں بھی اس بحران پر حکومت پر تنقید ہو رہی ہے اور انتخابی ریلیوں سے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کے خطاب اور ریاست اتراکھنڈ کے ہری دوار میں کمبھ میلے میں لاکھوں افراد کے گنگا اشنان (غسل) کی اجازت دینے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیو یارک ٹائمز، گارڈین، لی مونڈے، آسٹریلین، ٹائم میگزین اور دیگر بین الاقوامی اخبارات اور نیوز چینلز پر بھارت میں آکسیجن اور ادویات کی قلت سے انسانی جانوں کے نقصان کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اور شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کی تصاویر کے ساتھ رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا ہیش ٹیگ
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومت کے خلاف ہیش ٹیگ چلائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے شہریوں کی جانب سے ہیش ٹیگ ’مودی میڈ ڈزاسٹر‘ اور ہیش ٹیگ ’مودی فیلز انڈیا‘ وغیرہ کے تحت حکومت پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ فیس بک پر رواں ہفتے ہیش ٹیگ ’ریزائن مودی‘ ٹرینڈ کرتا رہا لیکن اس کے بعد وہ گھنٹوں تک فیس بک سے غائب ہو گیا۔ بعد میں اسے بحال کیا گیا۔
اس بارے میں فیس بک نے وضاحت پیش کی کہ اس ہیش ٹیگ کو ہٹانے میں بھارت کی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بلکہ نادانستگی میں اسے ہٹا دیا گیا تھا۔
بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی جانب سے بھی ایک بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے اس ہیش ٹیگ کو ہٹانے کی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔
لیکن مبصرین کے مطابق حکومت اس صورتِ حال سے گھبرا گئی ہے اور وہ اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیرِ خارجہ کی ہائی کمشنرز کو ہدایت
وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے مختلف ملکوں میں موجود بھارت کے ہائی کمشنرز کے ساتھ جمعرات کو ایک آن لائن اجلاس میں کہا کہ عالمی میڈیا میں کرونا بحران پر یک طرفہ رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ اس صورتِ حال کے لیے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
اس ورچوئل اجلاس میں وزیرِ خارجہ کے علاوہ نائب وزیرِ خارجہ وی مرلی دھرن، سکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا اور کرونا بحران سے نمٹنے میں مصروف حکومتی اہلکاروں نے بھی حصہ لیا۔
اجلاس کے شرکا کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے تمام ہائی کمشنرز سے کہا کہ وہ عالمی میڈیا میں مودی حکومت کے خلاف ہونے والی منفی رپورٹنگ کا جواب دیں۔ ان کے مطابق دنیا کے سامنے حکومت کا مؤقف پیش کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اجلاس میں کہا گیا کہ دنیا کے ماہرینِ صحت نے کرونا وائس کی اس دوسری لہر کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی تھی۔ گزشتہ سال کرونا کی پہلی لہر کے دوران متعدد ترقی یافتہ ممالک میں بھی صحت کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔
ایس جے شنکر نے ہائی کمشنرز سے کہا کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ اس دوسری لہر کا تعلق پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے نہیں ہے۔ کیوں کہ مہاراشٹرا اور دہلی میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آ رہے ہیں جہاں انتخابات نہیں ہو رہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران ہائی کمشنرز میں سے کسی نے بھی کمبھ میلے کے منفی نتائج سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ نہ ہی کسی نے اس پر کوئی گفتگو کی کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کی پرہجوم انتخابی ریلیوں میں کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کی گئی۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی
قبل ازیں حکومت نے ٹوئٹر کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے کم از کم ان 100 ٹوئٹس کو ہٹا دے جن میں کرونا بحران کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حکومت کی ہدایت پر ٹوئٹر نے متعدد ٹوئٹس ہٹا دی تھیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی ہدایت پر ٹوئٹر کی جانب سے ٹوئٹس کو ہٹانا اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے جیسا ہے اور اس سے شہریوں کے اظہار کی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق ڈائرکٹر آکار پٹیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جمہوری ملکوں کا آئین عوام کو اظہارِ خیال کی آزادی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹوئٹر کو یہ ہدایت دینا کہ وہ فلاں فلاں ٹوئٹس ہٹا دے اور ٹوئٹر کی جانب سے اس حکم پر عمل کرنا انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت اپنے خلاف ہونے والی رپورٹنگ اور سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید سے گھبرا اٹھی ہے اور وہ عوام کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔
ان کے بقول بھارت میں ایسے قوانین ہیں جن کی بنیاد پر حکومت ٹوئٹر اور فیس بک کو نوٹس بھیج رہی ہے۔ حکومت کے پاس لوگوں کی آوازیں دبانے کے لیے بہت سارے ہتھیار ہیں اور موجودہ حکومت ان ہتھیاروں کا کہیں زیادہ استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹر کو ہدایت دیتی ہے تو ٹوئٹر یا تو مذکورہ پوسٹس کو ہٹا دیتا ہے یا انہیں کچھ وقت کے لیے معطل کر دیتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے خلاف کہیں سے کوئی آواز اٹھے۔ صرف کرونا کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے معاملات میں بھی حکومت عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتی اور اظہار کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
آکار پٹیل نے عالمی میڈیا میں مودی حکومت پر کی جانے والی تنقید کی حمایت کی اور کہا کہ ہم اس صورتِ حال کے لیے مودی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھیرائیں گے تو کس کو ٹھیرائیں گے۔
’حکومت حقائق چھپانے کی کوشش کر رہی ہے‘
انٹرنیٹ قوانین کے ماہر اور سینئر صحافی ڈاکٹر محمد یامین انصاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت موجودہ بحرانی حالات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حقائق منظرِ عام پر لائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عالمی میڈیا کی رپورٹنگ اور سوشل میڈیا ہیش ٹیگ سے اس کی بدنامی ہو رہی ہے لہٰذا اس نے متعدد پوسٹس ہٹوا دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کا آئین عوام کو اظہارِ رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ لیکن یہاں جو انٹرنیٹ قوانین ہیں۔ ان کی آڑ میں حکومت عوامی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر غلط اطلاعات پوسٹ کر رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن حقائق کو منظرِ عام پر لانا ایک شہری کا حق ہے اور اگر کوئی اس حق کا استعمال کر رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔
آکسیجن مانگنے پر پولیس کارروائی
اتر پردیش کے امیٹھی میں ایک شخص کی جانب سے اپنے ایک 88 سالہ بزرگ رشتے دار کے لیے ٹوئٹر پر آکسیجن فراہم کرنے کی درخواست کے خلاف پولیس نے ’ایپی ڈیمک ایکٹ‘ کے تحت کارروائی کی ہے۔
ششانک نامی اس شخص نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا تھا کہ اسے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس نے ایک فلم اداکار سونو سود اور ’دی وائر‘ سے وابستہ صحافی عارفہ خانم شیروانی کو بھی ٹیگ کیا تھا۔
عارفہ نے امیٹھی کی رکن پارلیمنٹ اسمرتی ایرانی کو ٹیگ کرتے ہوئے اسے ری ٹوئٹ کیا جس پر اسمرتی نے مذکورہ شخص سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ضلع مجسٹریٹ اور پولیس کو بھی لکھا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اسی پی) دنیش سنگھ نے بدھ کو اس حوالے سے بتایا تھا کہ جب پولیس مذکورہ شخص کے گھر گئی تو وہ سوتے ہوئے پایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جس شخص کے لیے آکسیجن طلب کی گئی تھی اس کو نہ تو کرونا تھا اور نہ ہی آکسیجن کی ضرورت تھی۔ اس شخص کی موت پیر کو دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
پولیس نے مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی کی اور اسے وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔