بھارت کے ٹیکس حکام نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے دفاتر میں تین روز تک جاری رہنے والی تلاشی ختم کردی ہے۔
ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے مطابق تلاشی کے دوران بعض ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ڈیٹا کی نقل تیار کی گئی ہیں۔ ٹیکس حکام نے بی بی سی کے نئی دہلی اور ممبئی میں قائم دفاتر میں منگل کو تلاشی شروع کی تھی جو جمعرات کی شب ختم کی گئی۔
بی بی سی کے مطابق تلاشی کے عمل کے دوران بی بی سی کے کارکنان سے رات گئے تک طویل پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری رہا۔
بی بی سی نے اپنے دفاتر میں ٹیکس حکام کی تلاشی ختم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملازمین نے معمول کے مطابق کام کا آغاز کردیا ہے۔ البتہ بیان میں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کارروائی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو پریشان کُن اور خلل کا باعث قرار دیاہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بی بی سی کے دفاتر سے بعض ڈیجیٹل ڈیوائسز کا ڈیٹا کاپی کیا گیا ہے تاہم کسی ڈیوائس کو تحویل میں نہیں لیا گیا۔
SEE ALSO: نریندر مودی پر بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں نیا کیا ہے؟ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹیکس حکام نے صرف اہم ذمے داریاں ادا کرنے والے ملازمین سے بیانات لیے ہیں جن مین زیادہ تر کا تعلق فنانس، کنٹینٹ ڈویلپمنٹ اور پروڈکشن کے شعبوں سے تھا۔
اس سے قبل 'رائٹرز' نے جمعرات کو اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ تلاشی کے دوران ٹیکس حکام نے بی بی سی کے ادارتی اور انتظامی عملے کے زیرِ استعمال لیپ ٹاپس اور موبائل فون کی بھی جانچ پڑتال کی تھی۔
بھارت کے ٹیکس حکام نے یہ چھاپہ ایسے موقع پر مارا ہے جب وزیرِ اعظم نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم ’دی مودی کوئسچن‘کے نشر ہونے کے بعد غیر ملکی ادارے کےخلاف بھارت میں احتجاج ہو رہا تھا۔
بی بی سی کی اس دستاویزی فلم میں 2002 میں گجرات کے فسادات میں نریندر مودی کے کردار سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔
بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری میں پیش کیے گئے حقائق پر قائم ہے جب کہ بھارتی حکام نے اسے پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اس کی اسٹریمنگ اور سوشل میڈیا شیئرنگ پر پابندی عائد کردی تھی۔
سوشل میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت
'رائٹرز' نے رپورٹ کیا ہے کہ انہوں نے بی بی سی کی جانب سے عملے کو جاری کردہ ایک ایسا میمو دیکھا ہے جس میں انہیں سوشل میڈیا سے دور رہنے اور ان پلیٹ فورمز پر کسی بھی قسم کے تبصروں سے قبل ادارے کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بی بی سی نے اپنے ایک انٹرنل میمو میں عملے کو دیانت داری کے ساتھ حکام کے سوالوں کے جواب دینے اور اپنی ڈیوائسز سے کسی بھی قسم کی معلومات ڈیلیٹ نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
بھارتی حکام نے سروے کو 'انتقامی کارروائی' قرار دینے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس قوانین کے ٹرانسفر پرائس رولز کی خلاف ورزی کی وجہ سے بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی لی گئی ہے۔
SEE ALSO: بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی: ہم دنیا بھر میں آزادیِ اظہار کی حمایت کرتے ہیں ,امریکہبھارت کی وزارتِ اطلاعات کے سینئر مشیر کنچن گپتا نے بدھ کو بھارتی چینل ’ٹائمز ناؤ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی بی سی کو ماضی میں بھی ٹیکس نوٹس بھیجے گئے تھے لیکن ان کا 'تسلی بخش' جواب موصول نہیں ہوا۔
بھارت میں حالیہ چند برسوں میں ٹرانسفر پرائسن رولز کے قوانین کے تحت بعض بین الاقوامی کمپنیوں کی جانچ پڑتال میں تیزی آئی ہے تاہم بھارت میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے بی بی سی میں تلاشی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ممبئی پریس کلب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔
بھارت میں مدیروں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ، صحافی تنظیموں اور بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی بی بی سی میں ٹیکس حکام کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔