بھارت میں مختلف جامعات کی انتظامیہ کی جانب سے وزیرِاعظم نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی ڈاکیومینٹری دکھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔ جب کہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے پورے ملک کی جامعات میں یہ فلم دیکھنے کی کال دی ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش کا کہنا ہے کہ گجرات کے پُرتشدد واقعات پر برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی دستاویزی فلم دیکھنے پر حکومت کی پابندی غیر جمہوری ہے۔ ہر شہری کو کسی بھی فلم یا کسی بھی واقعے کے بارے میں حقائق جاننے اور اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور دیگر ریاستوں کی یونیورسٹیز میں اس فلم کو دکھانے کے خلاف پولیس کی کارروائی غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم’اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا‘ (ایس ایف آئی) کی جانب سے تمام کیمپسز میں بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنے کی کال دی ہے۔
واضح رہے کہ ایس ایف آئی سے وابستہ اسٹوڈنٹس نے منگل کی رات نو بجے جے این یو کیمپس میں بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ دکھانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ فلم دکھانے سے کیمپس میں امن و قانون کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔اسے بنیاد بناتے ہوئے انتظامیہ نے فلم کی اسکریننگ پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس پابندی پر طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے نام خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ طلبہ کیمپس میں کوئی مسئلہ پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ یہ رضاکارانہ کال ہے۔ جو دیکھنا چاہے دیکھے جو نہ چاہے نہ دیکھے۔لیکن انتظامیہ نے منگل کی شب ساڑھے آٹھ بجے کیمپس کی بجلی کاٹ دی جس کے بعد طلبہ نے اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر یہ فلم دیکھی۔
طلبہ کا الزام ہے کہ اس دوران ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ پتھراؤ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبہ شاخ ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (اے بی وی پی) سے وابستہ طلبہ کی جانب سے کیا گیا۔ اس بارے میں پولیس نے رپورٹ درج کر لی ہے۔
SEE ALSO: مودی پردستاویزی فلم: ’بی بی سی کا دفتر بھارت میں ہوتا تو چھاپہ پڑ چکا ہوتا‘اگلے روز یعنی بدھ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بھی فلم دکھائے جانے کا اعلان کیا۔ جامعہ کی انتظامیہ نے بھی اس پر پابندی عائد کر دی۔ جامعہ ملیہ کی انتظامیہ نے اس اعلان کے بعد یونیوسٹی کے تمام دروازے بند کر دیے اور تدریسی عمل بھی روک دیا۔
اس موقعے پر کیمپس میں بڑی تعداد میں پولیس تعینات رہی۔ پولیس نے انتظامیہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے ایک درجن سے زائد طلبہ کو حراست میں لے لیا۔
’حکومت اپنا مؤقف واضح کرے‘
آئشی گھوش کہتی ہیں کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ فلم غلط ہے یا اس میں پیش کیے گئے حقائق درست نہیں تو اپنا مؤقف سامنے لائے اور وضاحت کرے کہ اس میں ایسا کیا غلط او ربے بنیاد ہے جس کی وجہ سے اس فلم کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انتظامیہ اور پولیس کی کارروائی قابل مذمت اورغیر منصفانہ ہے۔ پولیس نے متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لیا ہے۔
لیکن جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے احتیاطی اقدامات کی وجہ سے کیمپس میں صورتِ حال معمول پر رہی۔
آئشی گھوش کے مطابق اگر آج کے نوجوان اور طلبہ اہم ملکی معاملات پر غور و فکر کرنا چاہتے ہیں یا وہ پڑھنا چاہتے ہیں تو حکومت اس پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ جب کہ کسی بھی معاملے پر غور و فکر کے بعد ہی قومی اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے اور ایک تعمیری سوچ سامنے آتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم آج بھارت کا یوم جمہوریہ منا رہے ہیں۔ لیکن آئین نے جمہور کو جو حقوق دیے ہیں ان پر پابندی لگانے یا ان کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے? جہاں طلبہ کو لکھنے پڑھنے، غور و فکر کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کی آزادی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ریاست کیرالہ کی کئی یونیورسٹیز میں بھی، جہاں بائیں بازو کی حکومت ہے، یہ دستاویزی فلم دیکھی گئی۔ کلکتہ کے طلبہ نے حکومت سے مختلف کیمپسز میں فلم دیکھنے کی اجازت طلب کی ہے۔
آئشی گھوش کے مطابق حیدرآباد میں بھی طلبہ نے فلم دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں بھی پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔
واضح رہے کہ جے این یو بائیں بازو کے طلبہ کا گڑھ رہی ہے۔ لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اے بی وی پی اور ایس ایف آئی میں تصادم بڑھ گیا ہے۔ بائیں بازو کے طلبہ اور حکومت و انتظامیہ کے مابین بھی تکرار بڑھی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت جے این یو کیمپس سے بائیں بازو کے نظریات والے ماحول کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
عوام کی رائے تقسیم
دستاویزی فلم پر پابندی کے سلسلے میں عوام دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی غلط ہے۔ اس قسم کی پابندیوں سے معاشرے میں آزاد سوچ کے پنپنے کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے سینئر رہنما اتل کمار انجان کہتے ہیں کہ فلم کو دیکھنا نہ صرف ہر طلبہ کا بلکہ ہر شہری کا حق ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ فلم جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، بنارس ہندو یونیورسٹی اور جنوب کی یونیورسٹیوں میں دیکھی گئی ہے۔ آگے چل کر یہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں دیکھی جائے گی۔ ان کے بقول، اس ملک میں دائیں بازو کے نظریات کے بالمقابل آزاد سوچ کے حامل افراد بھی ہیں اور ایسے تمام لوگ اس جمہوری حق کی حمایت کر رہے ہیں۔
دانشور ڈاکٹر سنیلم کا خیال ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنے پر حکومت کی پابندی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ جے این یو اور جامعہ کے طلبہ کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کی یہ مزاحمتی مہم ایک تحریک میں بدلنے والی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس دستاویزی فلم کی باضابطہ نمائش کا اہتمام کریں۔ ان کے بقول، یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ سے نریند رمودی کو کلین چٹ مل گئی ہے لیکن گجرات فساد کی تلخ یادیں آسانی سے بھلائی نہیں جا سکیں گی۔
دوسری طرف ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ فلم بھارت کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ طبقہ اس فلم کے نشر ہونے کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ایک سازش کے تحت یہ فلم بنائی گئی ہے۔
دریں اثنا 13 سابق ججز، سابق سفارت کاروں سمیت 133 سابق بیوروکریٹس اور150 سے زائد سابق فوجیوں نے ایک کھلے خط میں فلم کی مذمت کی ہے اور اسے کسی خاص مقصد سے بنائی جانے والی فلم قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: نریندر مودی پر بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں نیا کیا ہے؟ان کا کہنا ہے کہ فلم میں اس بات کو نظرانداز کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو کلیٹ چٹ دی ہے اور اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ فساد میں ریاستی حکوت ملوث رہی ہے۔
واضح رہے کہ فلم کے دوسرے حصے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے، شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد اور صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائیوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ڈاکیومنٹری میں حکومت کا دفاع کرنے والوں کا مؤقف بھی شامل ہے۔
بھارتی حکومت برطانوی نشریاتی ادارے کو ’پراپیگنڈا‘ قرار دے کر اس میں عائد کیے گئے الزامات کی تردید کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس فلم کے کلپس ہٹانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
صحافیوں اور انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے فلم پر پابندی کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں آزاد پریس کی حمایت کرتا ہے اور اظہار کی آزادی کو اہمیت حاصل ہےجب کہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے فلم پر پابندی کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔