رسائی کے لنکس

بھارت کے ساتھ پسِ پردہ رابطے نہیں ہو رہے: وزیرِ مملکت برائےخارجہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بیک چینل سفارت کاری نہیں ہورہی ہے۔

جمعرات کو سینیٹ اجلاس کے دوران جب حنا ربانی کھر سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پسِ پردہ رابطوں سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا "اس وقت ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔"

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات محدود ہیں اورعوامی رابطے بھی نچلی سطح پر ہیں۔

وزیرِ مملکت برائے امور خارجہ نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب اماارت کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امارات بھارت اور پاکستان کو مذکرات کی میز پرلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام معاملات پر سنجیدہ مذاکرات ہو سکیں۔

شہباز شریف کے اس انٹرویو کے بعد وزیرِ اعظم آفس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے پانچ اگست 2019 کے اقدام کوواپس لیے بغیر نئی دہلی سے بات چیت ممکن نہیں۔

لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کے بیان کے بعد پاکستان کے بعض حلقوں میں ایسا تاثر لیا گیا کہ شاید پاکستان اپنے ایک دوست ملک کے ذریعے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان پس پردہ رابطوں کے لیے کوشاں ہے۔

جمعرات کو سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان اس بات کا خواہش مند ہے کہ اس کی مشرقی اور مغربی سرحدیں پرامن رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم امن کے سفر پر گامزن ہیں جس کی ایک تاریخی مثال کرتار پور راہداری کا کھلنا ہے ۔

دوسری جانب دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرا ت کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ بھارت نے رواں برس مئی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیرِ خارجہ کو دعوت دی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد بھارت کی درخواست پر غور کر رہا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔

سابق امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے فروری 2019 میں پاک بھارت ممکنہ جوہری تصادم کو امریکہ کی جانب سے روکنے کے دعوے سے متعلق وائس آف امریکہ کے سوال پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ایک فرد کا بیان ہے۔

خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ سفارت کار اور خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیک پومپیو نے حال ہی میں اپنی یاد داشتوں پر مبنی کتاب 'نیور گیو این انچ' میں لکھا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ دنیا یہ درست طور پر جانتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی مخاصمت فروری 2019 میں کس طرح جوہری تصادم میں تبدیل ہونے والی تھی لیکن پومپیو کے بقول امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے اس کشیدگی میں کمی آئی۔

ترجمان دفتر خارجہ نے جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران فروری 2019 کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت جارحیت کس فریق نے کی۔ دنیا اس وقت پاکستان کی طرف سے تحمل، ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ ہے۔

XS
SM
MD
LG