رسائی کے لنکس

مہوش حیات کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد بدستور موجود، حکام کی جلد ہٹانے کی یقین دہانی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستانی اداکارہ مہوش حیات سمیت چار اداکاراؤں کے خلاف الزامات پر مبنی مواد سوشل میڈیا سے نہ ہٹایا جا سکا۔ متعلقہ حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مواد کو جلد ہٹا دیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق سوشل میڈیا پر اداکاراؤں کے خلاف قابلِ اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے کے خلاف مہوش حیات اور کبریٰ خان کی درخواستوں پر جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، وفاقی حکومت اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس معاملے پر عدالت میں اپنے جوابات جمع کرا دیے ہیں۔

جمعرات کو سماعت کے آغاز پر جسٹس نعمت اللّٰہ پھلپوٹو نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اداکارؤں کے خلاف سوشل میڈیا سے مواد ہٹانے کی ہدایت کی تھی، اس کا کیا ہوا؟

ایف آئی اے سائبر کرائم کی تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ موصول شدہ درخواست پر قابل اعتراض مواد ہٹانے کے لیے پی ٹی اے کو خط لکھ دیا ہے اور ایف آئی اے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

تفتیشی افسر کے مطابق مہوش حیات نے اب تک ایف آئی اے کے متعلقہ آن لائن فورم پر شکایت درج نہیں کروائی۔

واضح رہے کہ مہوش حیات اور کبریٰ خان نے سابق فوجی افسر اور یوٹیوبر عادل راجا کے بیان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اداکاراؤں نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ عادل راجا نے ان کے خلاف من گھڑت اور بے ہودہ الزامات لگائے جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔

پی ٹی اے نے قابلِ اعتراض مواد کے خلاف کارروائی کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ہے۔

پی ٹی اے نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ قابلِ اعتراض مواد جو خود ہٹا سکتے تھے وہ ہٹا دیا گیا ہے لیکن وہ مواد جسے بیرون ملک سے ہٹایا جانا ہے اس کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا ہے۔

پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر کے 65 اور انسٹاگرام کے 10 قابل اعتراض لنکس کو بلاک کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ جن لنکس اور اکاؤنٹس کے ذریعے قابلِ اعتراض مواد پھیلایا جا رہا ہے ان میں سے اب تک تین لنکس بلاک کیے ہیں اور پانچ لنکس پروٹیکٹ اور ناقابلِ رسائی ہیں جب کہ 49 لنکس کو جلد بلاک کر دیا جائے گا۔

پی ٹی اے نے رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ جن لنکس اور سوشل میِڈیا پلٹ فارم تک پی ٹی اے کی رسائی نہیں عدالت انہیں براہِ راست احکامات جاری کر سکتی ہے۔

عدالت نے پی ٹی اے، وفاقی حکومت اور ایف آئی اے سے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔

XS
SM
MD
LG