آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ایشیاء میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو کم لاگت کے موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔
واشنگٹن —
گو کہ ’سمارٹ فونز‘ کی دنیا میں ایپل کا ’آئی فون‘ لیڈر مانا جاتا ہے اور سالانہ کروڑوں ڈالرز کا منافع کماتا ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ایشیاء میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو کم لاگت کے موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال ہے انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتا جہاں کم آمدنی والے افراد بھی اب ’ڈیجیٹل لائف سٹائل‘ اپناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
رائیو سفیانتو کا شمار بھی جکارتہ کے ان لوگوں میں سے ہے جو اپنے موبائل فون کو صرف فون کال کرنے یا سننے کی بجائے اس پر دیگر بہت سے امور بھی نمٹاتے ہیں۔ جیسا کہ وسطی جکارتہ کی ایک مصروف بس میں وہ گھر واپسی کے راستے پر اپنے نوکیا کے موبائل فون پر موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ تئیس سالہ رائیو سفیانتو چہرے پر لگانے والے ماسک بیچتے ہیں۔ گو کہ ان کی آمدنی بہت کم ہے لیکن وہ پھر بھی اتنا کما ہی لیتے ہیں جس سے وہ انکی قوت ِ خرید میں ایسا فون آسکے جس پر وہ انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئیٹر اور دیگر گیمز کھیل سکیں۔
رائیو سفیانتو کا کہنا ہے کہ اب ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ حتیٰ کہ وہ اگر کسی دور دراز علاقے میں بھی ہوں تو اپنے خاندان والوں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے فون پر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی سن سکتے ہیں۔
رائیو سفیانتو ان لاکھوں انڈونیشیائی باشندوں میں سے ایک ہیں جو کم لاگت کے فونز پر انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گو کہ چند فونز کی انٹرنیٹ چلانے کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ان کم لاگت والے فونز پر انٹرنیٹ استعمال کرنا بہرحال اب ہر کسی کے لیے ممکن ہو گیا ہے۔
یہ موبائل فونز انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس اور دیگر سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح انڈونیشیا میں بھی کامیابی سے فروخت ہو رہے ہیں۔ انڈونیشیا میں ایک معروف کمپنی کا اچھا سمارٹ فون تقریبا سات سو ڈالر میں ملتا ہے۔
گو کہ غریب افراد کے لیے یہ سمارٹ فونز قدرے نئے ہیں لیکن جکارتہ کے ’باسٹن گروپ‘ کے سربراہ ایڈی ٹام بوٹو کہتے ہیں کہ لوگ بہت تیزی سے موبائل فونز استعمال کرنا سیکھ رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’بہت سے لوگوں کے لیے اب موبائل فون ان کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ ان کے لیے موبائل فون دنیا کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان کے لیے نوکریوں کے حصول کا ایک ذریعہ بھی بن چکا ہے۔‘‘
مثال کے طور پر نوکیا نے ’لائف ٹولز‘ کے نام سے ایک ایسی سروس متعارف کرائی ہے جس سے معمولی فیس ادا کرنے والے کسانوں کو موسم کے حال، فصلوں کی کٹائی اور فصلوں کی قیمت وغیرہ جیسی معلومات بروقت پہنچائی جاتی ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی معلومات سے انہیں فائدہ ملتا ہے۔ اسی طرح صحت ِ عامہ اور تعلیم کے شعبے میں بھی اسی طرز کی سہولیات میسر کی جا رہی ہیں۔
رائیو سفیانتو کا شمار بھی جکارتہ کے ان لوگوں میں سے ہے جو اپنے موبائل فون کو صرف فون کال کرنے یا سننے کی بجائے اس پر دیگر بہت سے امور بھی نمٹاتے ہیں۔ جیسا کہ وسطی جکارتہ کی ایک مصروف بس میں وہ گھر واپسی کے راستے پر اپنے نوکیا کے موبائل فون پر موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ تئیس سالہ رائیو سفیانتو چہرے پر لگانے والے ماسک بیچتے ہیں۔ گو کہ ان کی آمدنی بہت کم ہے لیکن وہ پھر بھی اتنا کما ہی لیتے ہیں جس سے وہ انکی قوت ِ خرید میں ایسا فون آسکے جس پر وہ انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئیٹر اور دیگر گیمز کھیل سکیں۔
رائیو سفیانتو کا کہنا ہے کہ اب ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ حتیٰ کہ وہ اگر کسی دور دراز علاقے میں بھی ہوں تو اپنے خاندان والوں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے فون پر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی سن سکتے ہیں۔
رائیو سفیانتو ان لاکھوں انڈونیشیائی باشندوں میں سے ایک ہیں جو کم لاگت کے فونز پر انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گو کہ چند فونز کی انٹرنیٹ چلانے کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ان کم لاگت والے فونز پر انٹرنیٹ استعمال کرنا بہرحال اب ہر کسی کے لیے ممکن ہو گیا ہے۔
یہ موبائل فونز انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس اور دیگر سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح انڈونیشیا میں بھی کامیابی سے فروخت ہو رہے ہیں۔ انڈونیشیا میں ایک معروف کمپنی کا اچھا سمارٹ فون تقریبا سات سو ڈالر میں ملتا ہے۔
گو کہ غریب افراد کے لیے یہ سمارٹ فونز قدرے نئے ہیں لیکن جکارتہ کے ’باسٹن گروپ‘ کے سربراہ ایڈی ٹام بوٹو کہتے ہیں کہ لوگ بہت تیزی سے موبائل فونز استعمال کرنا سیکھ رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’بہت سے لوگوں کے لیے اب موبائل فون ان کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ ان کے لیے موبائل فون دنیا کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان کے لیے نوکریوں کے حصول کا ایک ذریعہ بھی بن چکا ہے۔‘‘
مثال کے طور پر نوکیا نے ’لائف ٹولز‘ کے نام سے ایک ایسی سروس متعارف کرائی ہے جس سے معمولی فیس ادا کرنے والے کسانوں کو موسم کے حال، فصلوں کی کٹائی اور فصلوں کی قیمت وغیرہ جیسی معلومات بروقت پہنچائی جاتی ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی معلومات سے انہیں فائدہ ملتا ہے۔ اسی طرح صحت ِ عامہ اور تعلیم کے شعبے میں بھی اسی طرز کی سہولیات میسر کی جا رہی ہیں۔