'عید پر کوئی استعمال شدہ شرٹ ہی لا دیں تا کہ کالج میں کہہ سکوں کہ عید پر لی تھی'

ـ"پورا رمضان افطاری میں سالن اور روٹی کھا کر گزارا اور اب عید آئی ہے تو راشن ختم ہے۔ شام کو گھر پہنچنے پر بچے امید بھری نگاہوں سے پوچھتے ہیں کہ ابا کوئی دیہاڑی لگی؟ کالج جانے والی بیٹی نے رات کو بس اتنی فرمائش کی کہ کسی کی استعمال شدہ شرٹ ہی لا دیں تا کہ میں کالج جا کر کہہ سکوں کہ یہ میں نے عید پر خریدی تھی۔"

یہ جذبات ہیں لاہور سے تعلق رکھنے والے ترکھان محمد طارق کے جو رمضان میں کام نہ ملنے کے سبب پریشان ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محمد طارق کا کہنا تھا کہ اس عید پر بچوں کے نئے کپڑے تو دور کی بات انہیں پریشانی لاحق ہے کہ عید پر اگر کوئی مہمان آ گیا تو اس کی خاطر کہاں سے کرنی ہے۔ گھر میں راشن ختم ہے۔ ایسے میں عید منائیں یا نہ منائیں کیا فرق پڑتا ہے؟

کام نہ ملنے کے حوالے سے طارق کا کہنا تھا کہ ان کے پکے گاہک بھی کہتے ہیں کہ لکڑی کا کام کرائیں یا عید پر خرچہ کریں۔ عید کے بعد دیکھیں گے کہ کیا کیا کام ہونے والا ہے۔ پھر آپ کو فون کریں گے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بجلی و گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے بعد اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ اس کے سبب نہ صرف مڈل کلاس کا گزارا مشکل ہو گیا ہے بلکہ اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

'بڑی مشکل سے بچوں کو اسکول شوز لینے پر راضی کیا ہے'

لاہور کے علاقے صدر میں اپنی ورکشاپ چلانے والے آٹو مکینک محمد شہزاد کے مسائل بھی محمد طارق جیسے ہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پہلے اتنا کام ہوتا تھا کہ عید کے تینوں دن بچے نئے کپڑے پہنتے تھے۔ لیکن اب یہ حالات ہیں بمشکل بچوں کو ایک، ایک جوڑا ہی دلوا سکیں ہیں۔

جہاں بچوں کے تین دنوں کے کپڑے بناتے تھے، اس سال تو بڑی مشکل سے ایک دن کے کپڑے بنا سکے ہیں۔

شہزاد کے بقول بڑی مشکل سے اس سال بچوں کو عید پر اسکول والے جوتے لینے پر رضا مند کیا ہے کیوں کہ ان کے حالات بھی برے ہی تھے۔

شہزاد کا کہنا تھا کہ پچھلے سال یومیہ پانچ سے چھ ہزار کمائی ہو جاتی تھی جس میں سے لڑکوں کی دیہاڑی بھی نکل آتی تھی۔ اس سال یومیہ کمائی صرف تین سے چار ہزار ہے کیوں کہ اب صرف وہی گاڑی کا کام کرانے آتا ہے جس کے بغیر اس کا گزارا نہ ہو۔

اُن کے بقول پہلے یہ ہوتا تھا کہ گاڑیوں والے شوق میں کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بھی کام کراتے تھے لیکن اب صرف وہی کام کراتے ہیں جس سے ان کی گاڑی چل سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پرانے گاہک گاڑی ٹھیک کرا لیتے ہیں اور ہماری مزدوری ادھار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عید پر اتنے پیسے ہی ہیں کہ خراب گاڑی کے خراب اسپیئر پارٹس ڈال سکیں جس کے بغیر گزارا نہیں۔ آپ کی مزدوری تو اگلے ماہ تنخواہ آنے پر ادا کر دیں گے۔


'اب کوشش ہے کہ لگائے گئے پیسے وصول ہو جائیں'

لاہور میں واقع صدر بازار کے ساگر روڈ، پیڑھی روڈ اور ڈھاکہ روڈ پر جہاں عام دنوں میں گاڑی لے جانا مشکل ہوتی ہے، وہاں چاند رات سے ایک دن پہلے رات دس بجے ٹریفک رواں دواں ہے ۔ دکانوں سے زیادہ رش باہر فٹ پاتھ پر چلنے والوں کا ہے۔ جو ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے کپڑے خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دیے۔

پیڑھی روڈ پر واقع آرٹیفیشل جیولری کی دکان چلانے والے احمد رضا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی دکان کے باہر ٹھیلے پر بھی جیولری لگا دی ہے کیوں کہ خریدار شیشے والی دکان دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ دکان کے اندر جیولری مہنگی ہو گی اور باہر ٹھیلے پر سستی۔

احمد رضا کا کہنا تھا کہ اس عید پر دکان کے اندر بیچنے والی آرٹیفیشل جیولری نئی خریدی ہی نہیں اور صرف ٹھیلے پر بیچنے کے لیے جیولری خریدی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین بڑے شوق سے جیولری پسند کرتی ہیں لیکن جب قیمت سنتی ہیں تو دلبرداشتہ ہو کر واپس رکھ دیتی ہیں۔

ان کے بقول کچھ خواتین کی طرف سے جیولری کی قیمت جو لگائی جاتی ہے، وہ قیمت خرید سے بھی کم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب اس کوشش میں ہیں کہ لگائے گئے پیسے پورے ہو جائیں تا کہ عید تو منائی جا سکے۔

Your browser doesn’t support HTML5

عید پر بازاروں میں خریداروں کا رش؛ بڑھتی مہنگائی پر ملاجلا ردِ عمل

' آٹھ سے دس ہزار سے کم کرتا کہیں سے نہیں مل رہا'

ایک نجی بینک میں کام کرنے والے محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اس سال تو مہنگائی کی سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی کہ گھر چلانے کا خرچہ پورا کریں یا عید پر بچوں کو خریداری کرائیں؟

محمد شعیب جن کی اہلیہ بھی ایک اسکول میں پڑھاتی ہیں کا کہنا تھا کہ "ہم دونوں میاں بیوی پہلے ہر ماہ 10 سے 15 ہزار کی بچت کر لیتے تھے جس سے گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے۔"

لیکن ان کے بقول اب بچت تو دور کی بات ہر مہینے کے آخر میں جمع شدہ پونجی میں سے پیسے نکالنے پڑتے ہیں اور اس عید پر بھی اسی بچت میں سے بچوں کو عید کے کپڑے دلوائے ہیں اور اہلیہ بڑی مشکل سے ایک ہی برینڈڈ سوٹ لینے پر رضا مند ہوئی ہے۔

محمد شعیب کے بقول انہوں نے خود تو عید پر پرانے کپڑے پہننے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ان کے بقول آٹھ سے دس ہزار سے کم کرتا کہیں سے نہیں مل رہا۔


'اب زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے'

آئی ٹی کمپنی میں مارکیٹنگ شعبے کی سربراہ ملیحہ مشتاق جن کے مطابق ایک اچھی سیلری حاصل کرنے کے باوجود انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ملیحہ کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس عید پر انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ گھر میں موجود ان سلے کپڑوں میں سے چوائس کرے کیوں کہ اس طرح انہیں صرف درزی کی سلائی دینا پڑے گی۔

ملیحہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی خریداری کے لیے انہوں نے کئی دکانوں کے چکر لگائے تا کہ کہیں انہیں سیل میں کپڑے مل جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عید پر انہیں ان خرچوں کو بھی کم کرنا پڑا جن کے بارے میں کبھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ حتٰی کہ رمضان میں بھی انہیں افطاری کے لیے ان چیزوں میں سے چوائس کرنی پڑی جو ان کے بچوں کی پسندیدہ ڈشز تھیں۔

ملیحہ کے بقول اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے پھر بھی کچھ عید کی تیاری کر لی ہے لیکن اب زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔