یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادی صدر پوٹن کے جارحانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے معاشی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
ان پابندیوں کی زد میں روس کے بینک، مالیاتی ادارے اور کمپنیاں آ رہی ہیں اور ان کا دائرہ پُرتعیش بحری جہاز، نجی طیارے، وسیع جائیدادیں اور دولت کے انبار رکھنے والے روسی سرمایہ داروں تک بڑھا دیا گیا ہے۔روس میں سیاسی اور سماجی سطح پر با اثر سمجھنے جانے والے ان سرمایہ داروں کو ’اولیگارک‘ کہا جاتا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے خبر دار کر دیا تھا کہ یوکرین میں صدر پوٹن کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے ان اولیگارکس کی لوٹی ہوئی دولت کا تعاقب کیا جائے گا۔
امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی ان روسی سرمایہ داروں کے اثاثے موجود ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں ان میں سے کئی اثاثے منجمد ہوچکے ہیں اور ان میں سے کئی امیر ترین افراد کو مالیاتی اور سفری پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔
روس میں اولیگارکس کا یہ طبقہ 1990 کی دہائی میں سوویت یونین ختم ہونے کے بعد اقتدار کا شریک بنا تھا لیکن 1985 کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو ان سرمایہ داروں کے عروج کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔
دولت اور سیاست
روس میں 1917 کے بالشویک انقلاب کے بعد سوشلزم کے نظامِ معیشت کے تحت روس اور سوویت یونین میں شامل خطوں میں ریاستی وسائل پر حکومت کی اجارہ داری تھی۔ گیس، تیل، کان کنی اور بڑی صنعتوں کا کنٹرول اور سرمایہ حکومت کے ہاتھ میں تھا۔
سوویت یونین میں حکومت کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری چلاتا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق 1982 میں سوویت یونین کے سربراہ برزینیو کی موت کے بعد سوویت معیشت مسلسل زوال کا شکار تھی۔ 1985 میں جب گوربا چوف کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے تو انہوں نے معاشی اصلاحات لانا شروع کیں جنہیں روسی زبان میں ’پیریستوریکا‘ کہا جاتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وقت ایک بڑی فوجی قوت ہونے کے باوجود سوویت یونین شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا تھا۔ اس کی مجموعی پیداوار کا 25 فی صد دفاع پر خرچ ہو رہا تھا۔ ان حالات میں گورباچوف نے معیشت پر ریاست اور کمیونسٹ پارٹی کی گرفت ڈھیلی کی اور فری مارکیٹ کے لیے گنجائش پیدا کرنا شروع کی۔ معاشی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی وجہ سے انہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
کمیونسٹ پارٹی کو قابو میں رکھنے کے لیے گوربا چوف نے ایک فعال پارٹی رہنما بورس یلسن کو اختیارات دینا شروع کیے۔ انہیں ماسکو کا میئر بنایا اور پارٹی میں کرپشن کے خاتمے کا ٹاسک بھی دیا۔
گوربا چوف کی معاشی اصلاحات کی سست روی کو یلسن نے تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے دونوں میں اختلافات ہوئے اور یلسن سے کئی اختیارات لے کر انہیں ایک نائب وزیر کے عہدے تک محدود کر دیا گیا۔
امریکی صحافی ڈیوڈ ای ہوفمین کی کتاب ’دی اولیگارک‘ کے مطابق 1989 میں یلسن کی عوامی مقبولیت بڑھتی گئی۔ یلسن روسی قوم پرستی کی سیاست کر رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سوویت یونین کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے روس کے معاشی مفادات کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔
سوویت یونین 31 دسمبر 1991 کو ختم ہو گیا اور روس ایک الگ فیڈریشن بن گیا جس کے بعد صدر یلسن اقتدار میں آگئے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے آزاد مارکیٹ کے تصور کو اختیار کیا اور اسی دور میں ریاست کے مالیاتی اثاثے نجی کاروباری افراد کو فروخت کرنا شروع کیے۔یلسن کے دور میں اثاثوں کی خریداری کرنے والوں کے لیے آسان قرضے بھی فراہم کیے گئے اور ان میں کئی ڈیلز میں بد عنوانی کی شکایات بھی سامنے آئیں۔
ان ڈیلز کے نتیجے میں روس کی تیل اور گیس کی کمپنیاں، کان کنی، ریلوے، زراعت، مواصلات اور بڑی صنعتیں سابق سرکاری افسران اور سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں چلی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیوڈ ای ہوفمین’دی اولیگارک‘ میں لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ابھرنے والے سرمایہ داروں کے اس نئے طبقے کو معیشت کے ساتھ ساتھ ریاستی امور اور سیاست میں بھی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ یلسن نے اپنے اقتدار کے لیے اپنے گرد جو ’اولیگارکی‘ بنائی تھی بعد میں اسی نے پوٹن کے ساتھ مل کر انہیں اقتدار سےنکال باہر کیا۔
ہوفمین کے مطابق اولیگارک کہلانے والے یہ ارب پتی دنیا بھر میں روسی حکومت اور حکمرانوں کے آف شور سرمائے اور اثاثوں کے راز دار اور محافظ بھی تھے۔
روسی ماہرینِ اقتصادیات سرگئی گوریف اور ایندری راشنسکی کے 2004 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق روس میں بڑی کمپنیوں اور اربوں ڈالر کے مالیاتی اثاثوں کی ملکیت میں انہی اولیگارکس کے نام آتے ہیں اور یہ کہیں نہ کہیں کاوربار اور سیاست کے درمیان تعلق کی کڑی بن جاتے ہیں۔ اس لیے نظام ریاست ایک بڑے کاروباری ادارے یا ’انکورپوریشن‘ کی طرح چلتا نظر آتا ہے۔
بڑھتی ہوئی دولت
نوے کی دہائی کے آخر میں معاشی بحرانوں کے باوجود ان اولیگارکس کے اثاثوں میں کمی نہیں آئی۔ معروف جریدے ’فوربس‘ کے مطابق 2001 میں روس کے آٹھ ارب پتی افراد کی مجموعی دولت لگ بھگ ساڑھے 12 ارب ڈالر تھی۔ دس برس بعد ان ارب پتی افراد کی تعداد 101 ہوچکی تھی اور ان کی مجموعی دولت کا اندازہ 432 ارب ڈالر سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔
روسی ماہرینِ اقتصادیات سرگئی گوریف اور ایندری راشنسکی کے مطابق روس میں معاشی اصلاحات کے بعد بھی اس کا اقتصادی ڈھانچہ ایسا ہے جس میں ریاست پر معاشی امور میں براہ راست یا بالواسطہ انحصار برقرار ہے۔ ارب پتی اولیگارک بھی ایسے خودمختار معاشی کردار نہیں ہیں جو اپنی الگ حیثیت میں ریاست کے خلاف کوئی بات کرسکتے ہوں۔ لیکن بورس یلسن کے آخری دور میں آنے والے اقتصادی بحران میں وہ معاشی پالیسی اور سیاست پر اثر انداز ہونے لگے تھے۔
نیا حکمران نئے اولیگارک
اپنی کتاب میں ہوفمین لکھتے ہیں کہ پوٹن روس کے خفیہ ادارے کے جی بی میں رہے تھے۔ وہ یلسن دور کے اولیگارکس کی سرگرمیوں سے آگاہ تھے اور انہیں ناپسند بھی کرتے تھے۔
پوٹن نے اقتدار میں آنے کے بعد ان اولیگارکس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ پوٹن کے عزائم کو دیکھتے ہوئے بعض سرمایہ داروں ںے پوٹن کے سیاسی مخالفین کی مدد کرنا شروع کی تھی لیکن پوٹن نے ان کے خلاف بھی ٹیکس چوری جیسے الزامات میں کارروائیاں شروع کیں۔ 2003 میں میخائل خودورکووسکی نامی اولیگارک کے خلاف اسی لیے کارروائی کی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہوفمین کے مطابق خودروکووسکی کی مثال سے دیگر سرمایہ داروں کو واضح پیغام مل گیا کہ ان کے کاروباری مفادات کا تحفظ پوٹن کے ساتھ وفا داری سے مشروط ہے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ روس کی سیاست اور معیشت سے ان طاقت ور سرمایہ داروں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو گیا۔
پوٹن کے دوست
اس کے علاوہ پوٹن نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی کارپوریشنز میں اپنے قریبی دوستوں اور پرانے ساتھیوں کو اہم عہدے دینا شروع کردیے۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کے مطابق روس کی مجموعی قومی دولت کا 20 فی صد قبرص، برٹش ورجن آئی لینڈ یہاں تک کے امریکہ میں بھی آف شور اثاثوں کی صورت میں موجود ہیں۔
آئی سی آئی جے نے تحقیق کے بعد ایسے مال دار افراد ار اور مالیاتی اداروں کی نشان دہی کی تھی جو خفیہ طور پر صدر پوٹن اور روس کے معاشی مفادات اور اثاثوں کا تحفظ کررہے ہیں۔ان افراد میں صدر پوٹن کے بچپن کے دوست سرگئی رولدگن، پیٹر کولبن اور روسی صدر سے مبینہ مراسم رکھنے والی سویلتانہ کریونوگخ کے نام بھی شامل ہیں۔
اولیگراک سے سلووارک تک
روس میں صدر پوٹن کے سیاسی اقتدار پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق طاقت پر اپنی گرفت مضبوط ہونے کے بعد صدر پوٹن نے اولیگراک کے مقابلے میں ایک پورا طبقہ کھڑا کیا جسے ’سلووکی‘ یا ’سلووارک‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل روسی زبان میں عسکری اور سلامتی اداروں کی اعلی قیادت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔
SEE ALSO: کیا روسی صدر پوٹن اس دور کے ہٹلر ہیں؟ڈیوڈ ہوفمین کے مطابق پوٹن نے ان عہدے داران اور قریبی ساتھیوں کی مدد سے اپنا تسلط مضبوط کیا اور اسی عمل میں انہوں نے دولت بھی سمیٹی۔
وہ لکھتے ہیں کہ کہ پوٹن نے یلسن دور کے اولیگارکس پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنے اثاثے تو رکھ سکتے ہیں لیکن سیاسی نظام میں تبدیلی کی کوئی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔
سلووکی ایسے افراد تھے جنہیں سیاسی مخالفین کی آواز دبانے اور مبینہ طور پر راستے سے ہٹانے کے اختیارات بھی دیے گئے۔ اس لیے مبصرین کا خیال ہے کہ اولیگارک اب پوٹن کے روس میں ماضی جیسی طاقت نہیں رکھتے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اولیگارکس پر عائد کی گئی پابندیوں نے پوٹن پر زیادہ اثر نہیں ڈالا ہے۔
معاشی پابندیاں اثر انداز ہوں گی؟
کاروباری جریدے فوربس کے لیے کاروباری امور کی رپورٹنگ کرنے والی جمیما مک ایوئے نے روسی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک مبصر کے حوالے سے لکھا ہے کہ روسی ارب پتیوں پر پابندی کے معاملے پر پوٹن ’لاتعلق‘ نظر آتے ہیں۔
ان کے مطابق پوٹن کا خیال ہے کہ ان دولت مند افراد پر پابندیوں کی وجہ سے وہ اپنا سرمایہ روس واپس لانے پر مجبور ہوں گے۔
جمیما مک ایوئے لکھتی ہیں کہ پوٹن کو دنیا کا امیر ترین آدمی تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں دولت سے زیادہ طاقت میں دل چسپی ہے۔ روس کے امیر ترین افراد امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کے باعث گمبھیر مسائل کا سامنا کررہے ہیں لیکن انہیں ان حالات میں پوٹن سے ہمدردی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
SEE ALSO: مغرب کی پابندیوں سے خائف روسی اشرافیہ سرمایہ دبئی منتقل کرنے لگییونیورسٹی آف بالٹی مور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور روس کے اولیگارک پر ایک زیر طبع کتاب کے مصنف ڈیوڈ لنگلبیک کا کہنا ہے کہ پوٹن کے بڑے ارب پتی اتحادیوں یوری کووالچک، آرکیڈی روٹنبرگ اور بورس روٹنبرگ نے ان پر دولت کے دروازے کھولے تھے۔ ان سب پر 2014 میں کرائمیا میں روسی جارحیت کے بعد عالمی سطح پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
اس وقت جو ارب پتی عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل میں ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پوٹن سے قربت کے دعوے دار ہیں لیکن روس کے صدر اس صورتِ حال سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔
کیا بغاوت ممکن ہے؟
امریکی سی آئی اے کے سابق اہل کار اسٹیون ایل ہال کے مطابق یوکرین پر حملے کے بعد اولیگارکس اور سلووکی دونوں ہی طبقوں سے متعلق پوٹن کے تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔
یوکرین پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے روسی ارب پتی افراد کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے۔ لیکن کیا وہ اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے روس میں کسی سیاسی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادار کریں گے؟رواں ماہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں ہال کا کہنا ہے کہ پوٹن اور اولیگارکس کے درمیان شراکتِ اقتدار کا معاہدہ ہے۔ لیکن یہ معاہدہ یک طرفہ ہے اور اس کا تعلق صرف معیشت سے ہے۔
ان کے مطابق پوٹن اولیگارکس کو روس کے بڑے مالیاتی ادارے چلانے کی آزادی دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں منی لانڈرنگ اور دیگر معالی مفادات کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اولیگارکس کو سیاسی اور انتظامی قوت تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کی تبدیلی میں اولیگارکس کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ پوٹن کو اصل خطرہ سلووکی سے ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد روسی ریاست 1991 کی طرح شدید خطرات کا سامنا کررہی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جس ریاستی بندوبست نے سلووکی طبقے کو بااختیار بنایا تھا وہ آہستگی کے ساتھ تحلیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس لیے وہ کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
SEE ALSO: یوکرین پر روس کا حملہ اور پاکستان کی معیشت کے لیے خطراتجمیما مک ایوے کے مطابق یہ بتانا ناممکن ہے کہ پوٹن اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ لیکن یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک کو توقع ہے کہ معاشی پابندیاں روسی صدر کو جارحیت ترک کرنے پر مجبور کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ لیکن فی الوقت پوٹن اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
دوسری جانب امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی کے ہینز کالج کی سربراہ سارا مینڈلسن کے حوالے سے وہ لکھتی ہیں کہ معاشی پابندیوں نے پوٹن حکومت کی بنیادوں کو ’خطرے‘ میں ڈال دیا ہے۔