|
بھارت کی تاریخ میں آزادی کے بعد اٹھارہویں عام انتخابات ہو رہے ہیں جس میں کروڑوں ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
بھارت کے انتخاباب میں الیکشن کے ایشوز، اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں، الیکٹرانک مشینوں کا استعمال اور انتخابی مہم چلانے کے طور طریقوں سمیت بہت کچھ بہت تبدیل ہوا ہے۔ لیکن نہیں بدلا تو ووٹ دینے والوں کی انگلی پر انمٹ سیاسی سے نشان لگانے طریقہ نہیں بدلا۔
ووٹ دینے کے بعد انگلی پر نشان لگانے کا آغاز اکتوبر 1951 سے فروری 1952 کے درمیان ہونے والے بھارت کے پہلے عام انتخابات سے ہوا تھا۔
آزادی کے بعد ہونے والے یہ پہلے انتخابات کئی اعتبار سے تاریخی تھے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد بھارت نے نومبر 1949 میں اپنا آئین بنا لیا تھا جس کے بعد 1951 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ملک کے پہلے انتخابات ہو رہے تھے۔ اس وقت بھارت کی کُل آبادی 36 کروڑ تھی جن میں 17 کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹر تھے۔
اُس وقت یہ سوال درپیش تھا کہ الیکشن میں ایک سے زائد بار ووٹ ڈالنے کی روک تھام کے لیے ووٹرز کی نشاندہی کا کیا طریقہ استعمال کیا جائے؟
اس کام کی ذمے داری کونسل فور سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کو سونپی گئی تھی۔ سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر شانتی سوروپ بھٹناگر نے جو خود بھی ایک ممتاز سائنس دان تھے، اس انمٹ سیاہی کی تیاری کے لیے کونسل سے منسلک ایک لائق ترین کیمیائی سائنس دان سے رابطہ کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوروپ بھٹناگر نے اس سائنسدان کو سلور کلورائیڈ پر مشتمل سیاہی کا ایک فارمولا بھیجا تھا جو الیکشن میں استعمال کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ لیکن اس سیاہی کا نشان بہت جلد مٹ جاتا تھا۔ بھٹناگر چاہتے تھے کہ سیاہی کا نشان زیادہ دیر تک برقرار رہے تاکہ اس کے ذریعے سے بوگس ووٹنگ کو روکا جائے۔
یہ فارمولا لے کر بھٹناگر کا بھیجا ہوا پیغام رساں جب سائنسدان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس میں سلور برومائیڈ شامل کرکے ایک نیا فارمولہ تیار کیا اور یہ نمونہ واپس سوروپ بھٹناگر کو بھجوا دیا۔ اس کے بعد اس نمونے کو بھارتی الیکشن کمیشن کے عہدے داروں کو بھجوا دیا گیا۔
جب اس سیاہی کی آزمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ سیاہی فوری انمٹ نشان چھوڑتی ہے جسے کافی کوشش کے بعد بھی کئی دن تک مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔
اس فارمولے سے الیکشن کمیشن کو انمٹ سیاہی کا وہ حل مل گیا جسے بوگس ووٹنگ روکنے کے لیے آج بھی اہم سمجھا جاتا ہے اور اس کا استعمال جاری ہے۔
سوروپ بھٹناگر نے جنہیں یہ کام سونپا تھا اور جن کے تجویز کیے گئے فارمولے سے انمٹ سیاہی وجود میں آئی وہ ممتاز سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی تھے جنہوں نے بعد ازاں پاکستان ہجرت کرلی اور یہاں آکر سائنسی تحقیق کے اداروں کی بنیاد رکھی۔
سلیم الزماں نے جہاں سائنس کی دنیا میں نام پیدا کیا وہیں ان کے بڑے بھائی چوہدری خلیق الزماں ہندوستان کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں قیامِ پاکستان کی تحریک کے مرکزی رہنماؤں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔
سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو لکھنئو کے نزدیک ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد زمان ایک بڑے زمیندار تھے جنہیں شاعری، ادب، خطاطی جیسے فنون میں دل چسپی تھی جو ڈاکٹر سلیم الزماں میں بھی منتقل ہوئی۔
سلیم الزماں صدیقی نے علی گڑھ کے مسلم اینگلو اورینٹل کالج سے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں یہ کالج مسلم علی گڑھ یونیورسٹی بنا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ممبئی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔
بعدازاں سلیم الزماں صدیقی طب کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کالج لندن روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی عالمی جنگ کا دور تھا اور ہندوستان میں سلیم الزماں کے بڑے بھائی برطانیہ کے خلاف تحریک میں حصہ لے رہے تھے۔ اس لیے اپنے بڑے بھائی کے اصرار پر سلیم الزمان 1920 میں کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی آف فرینکفرٹ چلے گئے۔
سلیم الزماں نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران انہوں نے سینکڑوں تحقیقی مقالے لکھے اور ہندوستان کی روایتی ادویہ پر بھی تحقیق کی۔ 1940 میں سلیم الزماں صدیقی ہندوستان میں قائم ہونے والی کونسل فور سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) سے منسلک ہوگئے جہاں انہوں نے سائنسی تحقیق اور ادویہ سازی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
سال 1948 میں پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے بھارتی ہم منصب جواہر لعل نہرو کو ایک خط لکھا کہ وہ ڈاکٹر سلیم الزماں کو سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے پاکستان جانے کی اجازت دیں۔
بعض حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان نے براہ راست ڈاکٹر سلیم الزماں کو پاکستان آںے کی دعوت دی تھی جس کے بعد انہوں نے نہرو کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا۔
بہر حال جواہر لعل نہرو نے ڈاکٹر سلیم الزمان کو پاکستان جانے کی اجازت دی اور یہاں آکر انہوں نے پاکستان کونسل فور سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ(پی سی ایس آئی آر)، پاکستان سائنس کونسل کی بنیاد رکھی۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
سائنس اور تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سلیم الزماں مصوری کے شعبے میں بھی ممتاز مقام رکھتے تھے اور ان کے فن پاروں کی کئی نمائشیں بھی منعقد ہوئیں۔
ڈاکٹر سلیم الزمان برطانیہ میں ممتاز سائنس دانوں کی رائل سوسائٹی کے فیلو بھی رہے۔
بھارت سے 30 ملکوں تک
رائل سوسائٹی کے مطابق ڈاکٹر سلیم الزماں نے نیم کے طبی استعمال سمیت کئی شعبوں میں تحقیق کی اور سی ایس آئی آر سے وابستگی کے دوران 15 ایجادات کو پیٹنٹ کرایا جن میں انمٹ سیاہی کا فارمولا بھی شامل ہے جو آج بھی بھارت اور پاکستان میں استعمال ہو رہا ہے۔
تاہم بھارت کی نیشنل فزیکل لیبارٹری (این پی ایل) سے تعلق رکھنے والے کیمیائی سائنسدان ڈاکٹر نہر سنگھ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں کے فارمولے پر بعد ازاں ڈکٹر ایم گویل، ڈاکٹر بی جی ماتھر اور ڈاکٹر وی ڈی پوری نے مزید کام کیا۔
SEE ALSO: بھارت: انتخابات میں مسلمان ووٹرز اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے؟
ان کے مطابق اس فارمولے کے تحت تیار ہونے والی انمٹ سیاہی پہلی بار 1962 میں استعمال کی گئی۔ یہ فارمولہ این پی ایل کے پاس تھا جس کا لائسنس اس نے میسور پینٹ اینڈ ورنش لمیٹڈ (ایم پی وی ایل) کو منتقل کردیا۔ 1962 کے بعد سے بھارت میں صرف ایم پی وی ایل کو یہ سیاہی تیار کرنے کی اجازت ہے۔
بھارتی نیوز چینل 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق 2024 کے انتخابات کے لیے ایم پی وی ایل نے 58 کروڑ بھارتی روپے مالیت کی سیاہی تیار کی ہے جنہیں 28 لاکھ بوتلوں میں پیک کیا گیا ہے۔ 2019 کے عام انتخابات کے لیے 26 ہزار لیٹر انمنٹ سیاہی تیار کی گئی تھی۔
ڈاکٹر سلیم الزماں کے فارمولے اور اس پر بھارت میں مزید تحقیق کے بعد وجود میں آنے والی انمٹ سیاہی کو انتخابات کی شفافیت کے لیے اتنا موثر سمجھا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے علاوہ بھی کئی ممالک میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔
بھارت میں یہ سیاہی تیار کرنے والی کمپنی اسے تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیا اور کمبوڈیا سمیت تیس ممالک کو بر آمد کرتی ہے۔