یوسف عجب بلوچستان کے تاریخی ضلع قلات میں آن لائن صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ ایک آن لائن ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم بلوچستان پوائنٹ کے مدیر ہیں۔
22 مئی سال 2017 کو وہ اپنے دفتر میں اپنی ویب سائیٹ کے لیے خبریں بنا رہے تھے کہ اچانک ان کا انٹر نیٹ بند ہو گیا۔ معلوم کرنے پر انہیں پتا چلا کہ قلات اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے باعث انٹرنیٹ کی سہولت بند کر دی گئی ہے۔
یوسف عجب نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بطور آئن لائن صحافی ہمارے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ دفتر کے علاوہ ہم جہاں بھی ہوں، ہمارے پاس کام کرنے اور ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہونی چاہیے۔
یوسف عجب کے بقول، 'مجھے گزشتہ 4 برسوں سے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طریقے سے ہم اپنی ویب سائٹ پر کام کرنا چاہتے تھے اس طرح کام نہیں ہو رہا تھا۔
بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ بحال
دو روز قبل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ بحال کرنے کااعلان کیا ۔ یہ اقدام حکومت کی جانب سے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی نے متلعقہ انتظامیہ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر اور بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان اضلاع میں قلات، کیچ تربت، آواران پنجگور اور واشک شامل ہیں۔
حکام نے اس کے علاوہ بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر بھی انٹرنیٹ فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
پی ٹی اے حکام نے کالر موبائل آپریٹرز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ان اضلاع میں انٹرنٹ کی بحالی کے ساتھ اپنی سروسز کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدمات کریں۔
حکام نے کالر موبائل آپریٹرز سے ان علاقوں میں انفراسٹرکچر اپ گریڈ کرنے، 2 جی سروس کو 3 جی یا 4 جی پر منتقل کرتے کی بھی ہدایت کی ہے۔
حکام کو توقع ہے کہ انٹرنیٹ کی بحالی سے ان علاقوں میں تعلم، صحت، کاروبار اور رابطوں کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔
پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ کیوں بند کیا گیا تھا؟
مکران ڈویژن اور قلات کا شمار بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ جہاں ماضی میں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی فورسز پر کالعدم بلوچ مذاحمتی تحریکوں کی جانب سے حملے ہوتے رہے ہیں۔
ان علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر 2017 میں انٹرنیٹ بند کرنے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔
کیا اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہے؟
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ امن و امان کی وجہ سے بند تھا، مگر اب اس میں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے وفاقی حکومت سےان اضلاع میں انٹرنیٹ بحال کرنے کی درخواست کی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے ٹیوٹر پر پی ٹی اے کی پریس ریلز کے ساتھ عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی۔
یوسف عجب کے بقول، 'قلات میں اب امن و امان کی صورت حال پہلے سے کافی بہتر ہے خصوصاً قلات کے شہری علاقوں میں اب ایسے واقعات نہیں ہوتے جو آج سے پانچ دس سال قبل ہوا کرتے تھے۔
پنجگور کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مکران ڈویثرن میں امن وامان کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے لیکن اب بھی بعض اوقات دہشت گردی کے واقعات ہو جاتے ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
انٹر نیٹ کی بندش سے طالب علموں کو نقصان پہنچا
شامیر ضلع پنجگور کے رہائشی ہیں۔ وہ طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔
شامیر نے بتایا کہ پنجگور ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں انٹرنیٹ کی بندش سے طالب علموں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
شامیر کے بقول یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ایسے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکلات ہوئیں خاص طور پر طالب علم طبقہ شدید متاثر ہوا۔
شامیر نے بتایا کہ کرورنا وائرس کے دوران جب یونیورسٹی بند تھی اور آن لائن کلاسز لی جا رہی تھیں تو وہ کوئی کلاس جوائن نہیں کر سکے جس سے ان کی تعلیم کا نقصان ہوا۔
شامیر بلوچ کے مطابق حکومتی اعلان کے بعد اب پنجگور کے شہری علاقوں میں انڑنیٹ بحال ہو گیا ہے مگر سروس بہتر نہیں ہے۔
یاد رہے کہ کورونا وائرس کے دوران حکومت نےجہاں آن لائن کلاسز شروع کیں وہاں بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کے خلاف طلبا تنظیموں نے احتجاج بھی کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
قلات میں انٹرنیٹ کی بحالی کے ساتھ ہی مقامی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ صحافیوں اور طالب علموں کے علاوہ کاروباری طبقہ بھی اس فیصلے سے مطمئن نظر آتا ہے۔
افغانستان سے متصل سرحدی علاقے چمن میں بھی مختلف اوقات میں سیکیورٹی خدشات کے باعث انٹرنیٹ بند ہوتا رہتا ہے۔ مگر ان دنوں چمن میں نیٹ کی 4 جی سروس دستیاب ہے۔
قلات اور مکران ڈویژن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چار سالوں تک انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ان کے علاقے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بلوچستان اور دیگر صوبوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔