احمد علی بٹ کا شمار پاکستان کے ان چند اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ٹی وی، فلم اور موسیقی تینوں شعبوں میں ہی نام کمایا ہے۔
پاکستان کی سب سے کامیاب فلموں 'جوانی پھر نہیں آنی'، 'جوانی پھر نہیں آنی ٹو' اور 'پنجاب نہیں جاؤں گی' میں اداکاری ہو، 'ای پی بینڈ' کے ساتھ گلوکاری یا پھر ٹی وی پر ہوسٹنگ، احمد بٹ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا اس میں کامیابی ہی سمیٹی۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سب سے پہلے خود کو ایک 'انٹرٹینر' سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول "میں ایک انٹرٹینر ہوں، پھر اس کے بعد ہر وہ چیز جس میں کار آتی ہے جیسے اداکار، گلوکار، موسیقار وغیرہ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے آج کل بے کار نہیں۔"
رواں برس کے آغاز میں احمد علی بٹ پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں ترکی کے شہر استنبول گئے تھے۔ انہیں اس تقریب میں میزبانی کے فرائض انجام دینا تھے لیکن وہاں وہ کرونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے جس پر انہیں تقریب کی میزبانی سے دستبردار ہونا پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرونا کی وجہ سے ڈرامہ و فلم انڈسٹری میں جہاں کام ٹھپ رہا اور کئی اداکاروں کے وزن بڑھے وہیں احمد علی بٹ نے اپنا وزن گھٹا لیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس 'ویٹ لوس' کی وجہ سے کتنا نقصان ہو گا، تو ان کا کہنا تھا کہ اب 'فیٹ مین' تو ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔
کرونا وبا سے قبل فلم 'فیٹ مین' بنانے کا اعلان ہوا تھا اور اس فلم سے متعلق احمد بٹ کہتے ہیں "میری نبیل اور فضا سے کافی عرصے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے وہ جب بھی 'فیٹ مین' بنائیں گے تو میری جگہ کسی اور کو کاسٹ کریں گے کیوں کہ میں اب اس کردار پر فٹ نہیں بیٹھتا۔"
اُن کے بقول مذکورہ فلم کے اعلان کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران انہوں نے اپنا وزن کم کیا لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنا وزن اتنا زیادہ کم کر لیں گے۔
'گپی گریوال کے ساتھ کام کر کے مزہ آیا'
گزشتہ برس بھارتی پنجابی اداکار اور گلوکار گپی گریوال کے ساتھ فلم 'پٹھے ڈنڈے چک پنجابی' میں کام کرنے کو احمد علی بٹ ایک یادگار تجربہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول "اتنی بڑی پروڈکشن میں کام کرنے سے نہ صرف میں نے بہت کچھ سیکھا بلکہ میرے لیے فخر کی بات تھی کہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا، سکھ اور پنجابی کمیونٹی پاکستان سے بہت پیار کرتی ہے اور گپی گریوال جیسے لوگوں کے ساتھ کام کر کے مجھے بہت مزہ آیا۔"
'نانو نے میری کامیابی کی پیش گوئی کر دی تھی'
احمد علی بٹ کی والدہ ظل ہما اور نانی ملکہ ترنم نور جہاں پاکستان میں موسیقی کی جانی پہنچانی شخصیت ہیں، ان کے گائے کئی گیت آج بھی اسی طرح پسند کیے جاتے ہیں۔
اداکار نے بتایا کہ "گھر میں نانو ریاض کرتی تھیں تو مجھے اندازہ تھا کہ میں بھی گلوکار بنوں گا اور نانو نے پہلے ہی میری کامیابی کی پیش گوئی کر دی تھی۔"
SEE ALSO: 2020 کے ٹاپ پاکستانی ڈرامے: 'وہی گھریلو جھگڑے، متنازع معاشقے اور جرائم'اداکار نے بتایا کہ "میں تو بس اپنا کی بورڈ لے کر نانو کو اپنا گانا سنانے پہنچ جاتا تھا جس کے بعد وہ مسکرا کر میری طرف اشارہ کر کے کہتیں کہ یہ نمبر دو کچھ کرے گا، بس ابھی تک کچھ کر رہے ہیں۔
احمد بٹ نے کہا کہ ان کے خالو وحید بھی گلوکاری کا شغف رکھتے تھے اور انہوں نے ہی انہیں راک میوزک سے روشناس کرایا تھا۔
ان کے بقول پڑھائی کی وجہ سے والدہ سے جھاڑ پڑتی تھی۔ تمام بھائیوں کا ایک شیڈول بنا ہوتا تھا جسے فالو کرنا ہوتا تھا، اسکول کے بعد ہوم ورک، میوزک اور پھر کھیل۔
شوبز کی دنیا میں اقربا پروری پر بات کرتے ہوئے احمد علی بٹ کہتے ہیں "اپنے والدین کی فیلڈ میں طبع آزمائی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر آپ میرٹ پر ہیں تو میں نیپوٹزم کے حق میں ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ اگر ایک اداکار کا بیٹا اداکار، انجینئر کا بیٹا انجینئر، ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بن سکتا ہے تو ایک ایکٹر کا بیٹا ایکٹر کیوں نہیں۔ اگر یہ اقربا پروری ہے تو وہ اس کے حق میں ہیں۔
اداکار نے کہا کہ جس طرح ڈاکٹر بننے کے لیے ٹیسٹ کلیئر کرنا پڑتا ہے ویسے ہی شوبز میں اپنا لوہا منوانے کے لیے ہٹ فلم دینا پڑتی ہے۔ اگر آپ میرٹ پر پورا اترتے ہیں تو نیپوٹزم کوئی گالی نہیں۔
'سنجیدہ کردار ادا کرنے پر ایوارڈ ملنے کی خوشی ہے'
حال ہی میں اے آر وائی پیپلز ایوارڈز میں احمد علی بٹ نے بہترین شوہر کی کیٹیگری کا ایوارڈ حاصل کیا ہے جو خود ان کے لیے بھی باعثِ حیرت تھا۔
ایوارڈ کے حوالے سے احمد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ "دراصل اے آر وائی والوں سے میں نے گن پوائنٹ پر ایوارڈ لیا، مجھے خود ایوارڈ کا اعلان کرنے سے دو منٹ پہلے علم ہوا کہ مجھے ایوارڈ ملنے والا ہے اور مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ یہ ایوارڈ ایک سنجیدہ کردار ادا کرنے پر ملا۔"
انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ کیٹیگری میں سب اچھے اداکار تھے۔ لیکن شاید لوگوں کو وہ شوہر زیادہ پسند آیا جس کو پتا تھا کہ اس کی بیوی جھوٹ بولتی ہے لیکن وہ اس کے عیب پر پردہ ڈالے جا رہا تھا۔
ان کا ماننا تھا کہ لوگ انہیں سنجیدہ کردار کے لیے اس لیے کاسٹ نہیں کرتے کیوں کہ وہ مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن جب لوگ انہیں کسی ایسے کردار میں کاسٹ نہیں کرتے جو ان کے لیے بنا ہوتا ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کتنی نظر رکھتے ہیں؟
احمد علی بٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب لوگ ایک دوسرے کو ٹوئٹر اور انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے باخبر رکھتے ہیں تو میرے ساتھ ایک عجیب مسئلہ رہتا ہے۔ لوگ کبھی مجھے اداکار احمد علی اکبر سے کنفیوژ کرتے ہیں تو کبھی ماڈل و فلم اداکار احمد بٹ سے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ہی ایک پارسل احمد علی اکبر کے پاس چلا گیا جو ان پاس آنا تھا۔ ان کے بقول احمد بٹ نے انہیں پارسل کی تصویر کھینچ کر بھیجی اور کہا کہ "بٹ صاحب، شاید یہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔"
اپنے نام سے متعلق کنفیوژن کا قصہ سناتے ہوئے احمد علی بٹ کہتے ہیں ایک کالج میں تقسیمِ انعامات کی تقریب کے لیے ماڈل احمد بٹ کو مدعو کیا گیا تھا لیکن دعوت نامہ انہیں مل گیا تھا۔
'جوانی پھر نہیں آنی تھری، میں میرا کردار الگ انداز میں پیش کیا جائے گا'
احمد علی بٹ نے پاکستانی فلم جوانی پھر نہیں آنی (جے پی این اے) سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا تھا اور اس کا سیکول بھی کافی مقبول ہوا۔
اس سیریز کی تیسری فلم 'جوانی پھر نہیں آنی تھری' کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزن کم کرنے کے باوجود بھی وہ دوسرے سیکول کا حصہ رہیں گے اور حمزہ علی عباسی کی طرح فرنچائر نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال تو واسع چوہدری اور ہمایوں سعید 'نرم گرم' اور 'لندن نہیں جاؤں گا' میں مصروف ہیں لیکن جب بھی 'جوانی پھر نہیں آنی تھری ' لکھی جائے گی تو اس میں ان کا کردار ایک الگ ہی انداز میں پیش کیا جائے گا۔