ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون کوہ ِ پیما ثمینہ بیگ کا انٹرویو، جنہوں نے 54 دنوں میں ایورسٹ کی چوٹی سر کر لی۔ ثمینہ کا تعلق پاکستان کے علاقے ہنزہ سے ہے۔
واشنگٹن —
ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ ِپیما ثمینہ بیگ نے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں دنیا کے سات براعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مشن پر جانے کا مقصد دنیا کو ’جینڈر ایکوالٹی‘ یا مرد اور خواتین کے درمیان مساوات کا پیغام دینا ہے۔ جسے انہوں نے’’فرسٹ جنڈر ایکوالٹی ایکسپیڈیشن دو ہزار تیرا ماونٹ ایورسٹ‘‘ کا نام دیا ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ثمینہ کے بڑے بھائی مرزا علی بھی کوہ ِپیمائی کرتے ہیں اور وہ ماونٹ ایورسٹ سر کرنے میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پاکستان یوتھ آوٹ ریچ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد نوجوانوں اور خواتین کو کوہِ پیمائی کی تربیت دینا اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ کوہ ِپیمائی سپورٹس کا ایک ایسا شعبہ ہے جسے پاکستان میں نظر انداز کیا گیا ہے اس لیے انہوں نے ’جینڈر ایکوالٹی پروگرام‘ کے لیے ماونٹ ایورسٹ کا انتحاب کیا۔
ماونٹ ایورسٹ کے مشن میں ان کے ساتھ ان کے بھائی مرزا علی اور دو بھارتی جڑواں بہنیں بھی شامل تھیں۔ ان سبھی نے یہ سفر 54 دن میں ختم کیا۔
ثمینہ بیگ ابھی پاکستان واپس نہیں آئی ہیں۔ اس وقت وہ کھٹمنڈو میں ہیں۔ فتح سے سر شار ثمینہ بیگ کے ارادے سر بلند ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترن چوٹیوں کو سر کریں گی۔
ان کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ میں شمشال وادی سے ہے۔جہاں پر کئی پہاڑی چوٹیاں ہیں۔
اس انٹرویو کی مزید تفصیل کے لیے نیچے دیئے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مشن پر جانے کا مقصد دنیا کو ’جینڈر ایکوالٹی‘ یا مرد اور خواتین کے درمیان مساوات کا پیغام دینا ہے۔ جسے انہوں نے’’فرسٹ جنڈر ایکوالٹی ایکسپیڈیشن دو ہزار تیرا ماونٹ ایورسٹ‘‘ کا نام دیا ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ثمینہ کے بڑے بھائی مرزا علی بھی کوہ ِپیمائی کرتے ہیں اور وہ ماونٹ ایورسٹ سر کرنے میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے پاکستان یوتھ آوٹ ریچ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد نوجوانوں اور خواتین کو کوہِ پیمائی کی تربیت دینا اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ کوہ ِپیمائی سپورٹس کا ایک ایسا شعبہ ہے جسے پاکستان میں نظر انداز کیا گیا ہے اس لیے انہوں نے ’جینڈر ایکوالٹی پروگرام‘ کے لیے ماونٹ ایورسٹ کا انتحاب کیا۔
ماونٹ ایورسٹ کے مشن میں ان کے ساتھ ان کے بھائی مرزا علی اور دو بھارتی جڑواں بہنیں بھی شامل تھیں۔ ان سبھی نے یہ سفر 54 دن میں ختم کیا۔
ثمینہ بیگ ابھی پاکستان واپس نہیں آئی ہیں۔ اس وقت وہ کھٹمنڈو میں ہیں۔ فتح سے سر شار ثمینہ بیگ کے ارادے سر بلند ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترن چوٹیوں کو سر کریں گی۔
ان کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ میں شمشال وادی سے ہے۔جہاں پر کئی پہاڑی چوٹیاں ہیں۔
اس انٹرویو کی مزید تفصیل کے لیے نیچے دیئے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
Your browser doesn’t support HTML5