یہ 27 جولائی کی بات ہے جب دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ سرکرنے والے بین الااقوامی کوہ پیماؤں کے لیے کام کرنے والے پاکستانی پورٹر محمد حسن پہاڑ کے ایک خطرناک دھانے سے گر کر شدید زخمی ہوئے۔
دوسری طرف ناروے سےتعلق رکھنے والی کوہ پیما کرسٹن ہریلا اور ان کے گائیڈ ٹینجین نے اس روز کے ٹو سر کر کے 92 دن میں دنیا کی 14 بلند ترین پہاڑوں کو تیز ترین سر کرنے کا ریکارڈ بنایا۔
ان کوہ پیماؤں کا ریکارڈ اس خبر کے آگے معدوم ہوگیا کہ محمد حسن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
اب گلگت میں حکام نے تحقیقات شروع کی ہیں جو ان الزامات پر مرکوز ہیں کہ چوٹی تک پہنچنے کی خواہش میں درجنوں کوہ پیما شدید زخموں میں مبتلا پورٹر حسن کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے گزر گئے۔
کامیاب کوہ پیما کرسٹن ہریلا نے پورٹر حسن کی موت کی کسی بھی ذمہ داری کو مسترد کیا ہے۔ 27 برس کے محمد حسن کے تین بچے ہیں۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں جمعے کو ہریلا نے لکھا کہ المناک موت میں کسی کا قصور نہیں تھا۔
اس روز دو دیگر کوہ پیماؤں آسٹریا کے ولیم اسٹینڈل اور جرمنی کے فلپ فلیمگ نے موسم کی خرابی کے باعث چوٹی سر کرنے کی مہم ترک کر دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بعد میں ڈرون فوٹیج کا جائزہ لے کر اس روز کے واقعات کو دوبارہ ترتیب دیا۔
اسٹینڈل نے ہفتے کے روز خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ فوٹیج میں درجنوں کوہ پیماؤں کو ایک شدید زخمی حسن کو بچانے کے بجائے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اگر ہریلا اور ان کی ٹیم سمیت دیگر کوہ پیما چوٹی تک پہنچنے کی کوشش ترک کردیتے تو پورٹر کو بچایا جا سکتا تھا۔
اسٹینڈل نے مزید کہا کہ فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص (حسن) کے سینے کو رگڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کے بقول وہ اسے گرم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسے کسی طرح زندہ رکھا جا سکے۔
’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ شخص بے چین ہے۔‘‘
اسٹینڈل نے کہا کہ یہاں ایک دوہرا معیار ہے۔" اگر میں یا کوئی اور مغربی باشندہ وہاں پڑا ہوتا تو اس کو بچانے کے لیے سب کچھ کیا جاتا۔ زخمی شخص کو واپس وادی میں لانے کے لیے سب کو واپس جانا پڑتا۔"
آسٹریا کے کوہ پیما نے کہا کہ اس سیزن میں 27 جولائی وہ واحد دن تھا جب کوہ پیماؤں کے لیے کے ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے حالات سازگار تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس روز اتنے کوہ پیما کیوں چوٹی پر جانے کے لیے بے چین تھے۔
اسٹینڈل نے کہا کہ میں کسی پر براہِ راست الزام نہیں لگانا چاہتا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ وہاں کوئی ریسکیو آپریشن شروع نہیں کیا گیا۔ یہ واقعی بہت افسوسناک ہے کیوں کہ اس طرح کی صورتِ حال میں ایسا کرنا معمول کا اقدام ہوتا۔
کوہ پیما ہریلا نے نشریاتی ادارے ’اسکائی نیوز‘ کو بتایا کہ حسن پہاڑ کی خطرناک ترین رکاوٹ پر گرنے کے بعد ایک رسی سے سر سے نیچے لٹک رہے تھے۔
ان کے بقول ان ٹیم تقریباً ایک گھنٹے کے بعد حسن کو پگڈنڈی پر واپس لانے میں کامیاب ہوئی۔
کوہ پیما نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم کے ایک اور شخص نے چوٹی پر جانے کا فیصلہ کیا جب کہ ٹیم کا ایک اور رکن حسن کے ساتھ رہا۔ حسن کے ساتھ رہنے والے ٹیم کے ممبر نے زخمی پورٹر کو اپنے ماسک سے گرم پانی اور آکسیجن فراہم کی۔
کے ٹو کی چوٹی کی طرف بڑھنے کے فیصلے کے بارے میں ہریلا نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ ان کی فارورڈ فکسنگ ٹیم بھی مشکلات کا شکار تھی۔
تاہم انٹرویو کے دوران انہوں نے اس سلسلے میں مزید تفصیل نہیں بتائی۔
پاکستان الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری کہتے ہیں کہ حسن کی موت کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
ان کے مطابق تحقیقات گلگت بلتستان کے حکام کر رہے ہیں۔
حسن اس وقت لیلا پیک ایکسپیڈشن کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔
کمپنی کے عہدیدار انور سید نے بتایا کہ حسن کی موت چوٹی سے لگ بھگ 150 میٹر (490 فٹ) نیچے ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں نے مدد کرنے کی کوشش کی لیکن آکسیجن اور گرمی فراہم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلِ خانہ کے لیے حسن کی لاش کو واپس لانا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے حسن کے خاندان کو امدادی رقم دی ہے اور کہا کہ وہ ان کی مدد جاری رکھیں گے۔
اسٹینڈل نے حسن کے خاندان سے ملاقات کی اور کراؤڈ فنڈنگ مہم کےذریعہ تین دن میں ایک لاکھ ڈالر سے زائد کے عطیات ان تک پہنچائے ہیں۔
اسٹینڈل نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ انہوں نے خاندان کی تکلیف دیکھی ہے۔
ان کے مطابق حسن کی بیوہ نے ان کو بتایا کہ ان کے شوہر نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ اس کے بچوں کو زندگی میں (بہتر) مواقع مل سکیں اور وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔