امریکی ریاست ہوائی میں لگنے والی جنگل کی آگ میں اموات کی تعداد بڑھ کر 93 ہو گئی ہے جب کہ اس آتش زدگی کو امریکہ میں گزشتہ 100 برس میں مہلک ترین آگ لگنے کا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
حکام نے ہفتے کو خبردار کیا کہ مرنے والوں کی تلاش اور شناخت کی کوشش ابھی ابتدائی مراحل میں ہے کیوں کہ عملے نے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے اب تک صرف تین فی صد متاثرہ علاقوں میں تلاش کا کام مکمل کیا ہے۔
ریاست ہوائی کے متاثرہ قصبے ماؤوی کی پولیس کے سربراہ جان پیلٹیر نے خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں کہا کہ انہیں کم از کم پانچ مربع میل پر پھیلے علاقے کا احاطہ کرنا ہے اور یہ ہمارے پیاروں سے بھرا ہوا ہے۔
پولیس چیف نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ کوئی بھی اموات کی حتمی تعداد نہیں جانتا۔
چار روز پہلے بھڑکنے والی جنگل کی اس آگ سے قبل امریکی تاریخ میں آتش زدگی کا بدترین کا واقعہ ریاست کیلی فورنیا کے شمالی حصے میں 2018 کے کیمپ فائر میں پیش آیا تھا جس میں آگ سے 85 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اس آتش زدگی میں پیراڈائز کا قصبہ تباہ ہو گیا تھا۔
ایک صدی قبل 1918 میں امریکہ کی ریاست منی سوٹا میں کلوکیٹ کے قحط زدہ علاقے میں آگ سے سینکڑوں افراد کی موت ہوئی تھی۔ اس آگ نے کئی دیہی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جس سے ہزاروں گھر تباہ ہو گئے تھے۔
ریاست ہوائی کے شدید متاثرہ قصبے ماؤوی میں اب بھی کم از کم دو مقامات پر آگ بھڑک رہی ہے جس میں ابھی تک کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔
حکام نے بتایا کہ اس کے علاوہ جمعے کو کاناپالی ساحلی کمیونٹی کو چوتھی آگ کا سامنا رہا لیکن آگ بجھانے والے عملے نے اس پر قابو پالیا۔
ہوائی کے گورنرجوش گرین نے متاثرہ علاقے کی تاریخی فرنٹ اسٹریٹ کے دورے کے دوران کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ یقینی طور پر ہوائی کو اب تک کی بدترین قدرتی آفت ہے۔
انہوں نے آتش زدگی کی زد میں آنے والے لوگوں کے حوالے سے کہا کہ ہم صرف ان لوگوں کا انتظار کر سکتے ہیں یا ان لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں جو زندہ ہیں۔
گورنر گرین نے کہا کہ ان کی توجہ لوگوں کو دوبارہ ملانے، انہیں رہائش اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔
ان کے مطابق اس کے بعد وہ تباہ ہونے والے علاقے میں تعمیرِ نو کی طرف متوجہ ہوں گے۔
قبل ازیں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ تین روز تک بھڑکنے والی آگ نے دو ہزار سے زیادہ عمارتوں کو متاثر کیا ہے جب میں سے کئی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
دوسری جانب مقامی آبادی نے آفات کی صورت میں خبردار کرنے کے لیے قائم انتباہی نظام پر سوالات اٹھائے ہیں۔
تباہی کے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا کچھ رہائشیوں کو آگ کے ان کے گھروں کو لپیٹ میں لینے سے پہلے کوئی وارننگ ملی تھی یا نہیں۔
جزیرے میں ہنگامی سائرن لگائے گئے ہیں جن کا مقصد قدرتی آفات اور دیگر خطرات سے عوام کو آگاہ کرنا ہے۔
اس قصبے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انہیں آگ کے دوران ہنگامی سائرن کے بجنے کی آواز سنائی نہیں دی۔
ریاستی حکام نے واقعے سے قبل اور اس کے دوران کام کا جامع جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حقائق کو منظرِ عام پر لائیں گے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سےمواد شامل کیا گیا ہے۔
فورم