اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں پچاس فیصد سے زائد کمی آئی ہے اور اقتصادی ماہرین اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر تھا مگر 30 جون کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے دوران اب تک محض بہتر کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
سرکاری بینک نے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کی وجوہات نہیں بتائیں ہے مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں توانائی کے بحران میں شدت، خاص طور پر بجلی کی طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ اور سلامتی کے خدشات نے جہاں مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی ہے وہیں غیر ملکی سرمایہ کار بھی محتاط ہو گئے ہیں۔
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے علاوہ ملک کی مجموعی صورت بھی ایسی نہیں جس سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو۔
’’ملک میں ایک تو سکیورٹی ماحول ٹھیک نہیں ہے اور سیاسی معاملات میں اتنی غیر یقینی صورت حال ہے کہ کوئی رسک لینا نہیں چاہتا اس ملک میں۔‘‘
یکم جولائی 2012ء سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے بارے میں حکومت پاکستان کہہ چکی ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کو اولین ترجیح حاصل رہے گی اور اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران ملک کی مجموعی اقتصادی صورت حال میں بہتری آئے گی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت کو سخت محنت کرنا ہو گی۔
’’اتنا آسان کام نہیں ہوگا کہ ایک (بٹن) آن کرنے یا آف کرنے سے سرمایہ کار آئے گا یا چلا جائے گا ایسا نہیں ہوتا ہے۔ (سرمایہ کار) بھاگتا بڑی تیزی سے لیکن آتا بڑی مشکل ہے۔ اگر حالات ملک میں ٹھیک ہوں گے، معیشت کی طرف حکمران توجہ دیں اور ان کی پاس اچھی اکنامک ٹیم ہو گی جو باہر جا کر بات چیت کر سکے تو ضرور بہتری آئے گی۔‘‘
پاکستان کے مقامی صنعت کاروں کو شکایت ہے کہ توانائی کے بحران کے باعث انھیں برآمدی اہداف حاصل کرنے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے اور ان کا خدشہ ہے اگر بجلی اور گیس کی فراہمی میں بہتری نا آئی تو ملک کی مجموعی برآمدات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی بطور وزیراعظم نااہلیت کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی بڑھ گئی ہے کیونکہ ان کے خیال میں نئے وزیراعظم کی زیادہ تر توجہ سیاسی معاملات پر ہو گی اور محض چند ماہ کی مدت میں وہ عوام کے مسائل پر شاید ہی توجہ دے پائے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی سے ملک میں معاشی سرگرمیاں مزید سست ہو سکتی ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ان کے بقول یہ صورت حال خاص طور پر پاکستان کے ان حصوں کے لیے اچھا شگون نہیں جہاں شدت پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لیے خاص طور سے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی پر زور دیا جا رہا ہے۔