ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے متوقع صدارتی امیدواروں نے ہفتے کے روز ریاستِ آئیووا میں بڑے اجتماعات کے سامنے بولنے کی مشق شروع کردی ہے، اس امید کے ساتھ کہ وہ اس کلیدی مسیحی قدامت پسند اتحاد کی حمایت کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے۔
امیدوار ’ایمس‘ کے شہر میں موجود ہیں جہاں وہ ریاست کی سالانہ ’فیملی لیڈرشپ سمٹ‘ میں شریک ہیں، جو بااثر ’اوینجلیکل‘ ووٹروں کا ایک گروپ ہے، جن کی جانب سے اگلے سال کے اوائل میں ریاست کے منعقد کردہ معروف’صدارتی کوکسز‘ میں حاصل کی جانے والی حمایت کو فیصلہ کُن قرار دیا جاتا ہے۔
تجزیہ کار میدان میں کمربستہ کسی بھی امیدوار کو واضح طور پر سرکردہ نہیں سمجھتے، جن میں اسکوٹ واکر، ڈونالڈ ٹرمپ، رِک سنٹورم، مارکو روبیو اور رِک پیری شامل ہیں۔ بوبی جندال، مائیک ہکابی، لِنڈسی گراہم، ٹیڈ کروز اور بن کارسن بھی حمایت کے حصول کے لیے میدان میں ہیں۔ سربراہ اجلاس کے منتظم، بوب وینڈر پلیٹس کے مطابق، ’کئی امیدواروں کے ہوتے ہوئے، حمایت سے متعلق رائے پر مبنی پوزیشن غیر واضح ہے‘۔
ہفتے کے روز کی تقریب میں ہجوم نے ٹرمپ کا مذاق اُڑایا جب اُنھوں نے ایروزنا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جان مک کین کے بارے میں یہ کہا کہ ’کیونکہ وہ قید ہوئے تھے، اس لیے وہ جنگ کے ہیرو ہیں‘۔ ویتنام جنگ میں، مک کین نیوی کے پائلٹ تھے، جو پانچ برس سے زائد وقت کے لیے جنگی قیدی رہ چکے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جنھیں پکڑا نہیں جا سکا‘۔
کچھ ہی دیر بعد، ایک اخباری کانفریس سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے اپنے بیان پر معذرت نہیں کی۔ تاہم، اُنھوں نے اتنا کہا کہ اگر کوئی شخص قید کیا جاتا ہے، جہاں تک میری رائے ہے، ایسے لوگ جنگ کے ہیرو ہیں۔۔۔ لیکن، آپ کو بہت سی چیزیں بھی کرنی پڑتی ہیں‘۔
آئیووا کے ’ایونجلیکل ووٹر‘ اپنی پختہ تنظیم اور پولنگ میں پکی شرکت کا شہرہ رکھتے ہیں۔ روایتی طور پر وہ ریاست کے ’صدارتی کوکسز‘ کے نتائج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ڈیموکریٹس نے بھی ’بیل ویدر‘ ریاست میں اپنی صدارتی انتخابی مہم تیز کردی ہے، جہاں ’سیڈر راپیڈس‘ میں جمعے کو پارٹی کے ’فنڈریزر ڈنر‘ میں پانچوں امیدوار موجود تھے۔
پارٹی کی سرکردہ امیدوار، ہیلری کلنٹن نے مد مقابل ریپبلیکن مخالفین پر تنقید کی۔ اُن کے بقول، ’ہم نے جو پیش رفت حاصل کی ہے، میں نہیں چاہوں کی کہ ریپبلیکن اُسے ضائع کردیں‘۔
اُنھوں نے ریپبلیکنز پر عمل داری کے غیر مؤثر انداز اپنانے کا الزام لگایا۔ چندہ دینے والے 1300 سرگرم حامیوں کے اجتماع کے سامنے، اُنھوں نے کہا کہ ’بے انتہا امیر لوگوں کے لیے ٹیکس میں کٹوتی کرنا، بڑے کاروباری اداروں کو اپنے ضابطے خود وضع کرنے کی چھٹی دینا۔ یہی اُن کا خاص وتیرہ ہے‘۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم موضوعات، جن کا ڈنر میں ذکر آیا، اُن میں امیروں کے مفاد کے خصوصی گروہ، گے حقوق، خواتین کے حقوق، اِمی گریشن اصلاحات اور زیریں ڈھانچے سے متعلق منصوبوں پر زیادہ توجہ دینا شامل ہے۔
برنی سینڈرز، بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے امیدوار ہیں، جو آزاد انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے اجتماع کو بتایا کہ معاشی مساوات ایک اخلاقی، معاشی اور سیاسی معاملہ ہے جو ہمارے عہد کا نمایاں مسئلہ ہے۔ بقول اُن کے، ’ارب پتی طبقے کی طمع کا خاتمہ لانا ضروری ہے۔‘
تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ’تب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، جب تک لاکھوں لوگ مل کر اعلان نہ کریں کہ، بہت ہوچکا‘۔
حالیہ عام جائزوں میں، سینڈرز کی شہرت بڑھ رہی ہے، جب کہ وہ حالیہ دِنوں کے دوران، کلنٹن سے بڑے اجتماع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔