ایران نے عراق کے ساتھ اپنی شمالی سرحد کو مضبوط بنانے اور کرد حزب اختلاف کے گروپوں کی دراندازی روکنے کے لیے وہاں اسپیشل فورسز کے اضافی یونٹ بھیجے ہیں۔
ایران کے سرکاری خبر رساں اداے ارنا نے جمعہ کو خبر دی کہ ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کی زمینی افواج کے سربراہ جنرل محمد پاکپور نے کہا ہے کہ موجودہ سرحدی سیکیورٹی کو تقویت دینے کے لیے بکتر بند اور خصوصی فورسز کے یونٹ مغربی اور شمال مغربی صوبوں میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔
اس تعیناتی کا مقصد عراق میں جلا وطنی اختیار کیے ہوئے کرد حزب اختلاف کے ان گروپس کی جانب سے شمال میں در اندازی اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو روکنا ہے جن کے بارے میں تہران کا دعوی ہے کہ وہ ملک گیر پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کر رہے ہیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ وہ دعویٰ ہے جس کی کرد گروپ تردید کرتے ہیں اور ایران نے آج تک اس دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے ۔عراقی سرحد کے قریب ایران کے کئی فوجی اڈے ہیں۔
عراق کے فوجی ترجمان میجر جنرل یحییٰ رسول کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، فوجیوں کی نقل و حرکت اس وقت ہوئی جب عراق نے ایران کی طرف سے مزید بمباری کو روکنے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایات جاری کیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرد حزب اختلاف کے گروپس کے عراق کے کرد زیر انتظام شمالی علاقے میں اڈے موجود ہیں۔
اس ہفتے کے اوائل میں ، سرکاری میڈیا میں ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ان کے سرحدی فوجی ٹھکانوں کو حزب اختلاف کے گروپس کی سرکوبی کے لیے کسی زمینی فوجی آپریشن کا نہیں کہا گیاہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے جنرل اسماعیل غنی نے اپنے دورے کے دوران مبینہ طور پر ایسی دھمکی دی تھی۔
SEE ALSO: مظاہرین پر تشدد میں ملوث ایرانی عہدے داروں پر امریکی پابندیاں عائد
ایران کوستمبر میں خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت لباس کوڈ کی خلاف ورزی پر پولیس کی حراست میں ایک نوجوان خاتون کی موت کے بعد ملک گیر احتجاج نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہ مظاہرے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے حکومت کے لیےایک سب سے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے ۔