تہران کے جوہری پروگرام پر مغرب اور ایران کے درمیان تناؤ کم کرنے کی حالیہ کوششوں کو حماس کے اسرائیل پر حالیہ دہشت گرد انہ حملے کی وجہ سے دھچکا لگا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ خطے میں "پراکسی" عسکریت پسند گروپ کے طور پر حماس کی حمایت کر رہا ہے، ہر چند کہ انہوں نے تہران پر یہ الزام نہیں لگایا کہ سات اکتوبر کو گروپ کے اسرائیل پر حملے میں وہ براہ راست ملوث تھا۔
ان حملوں کے بعد غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں اب تک تقریبا 6500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 2700 سے زائد بچے بھی ہیں۔
حماس کے حملے سے قبل مغرب اور ایران کے درمیان تعلقات محتاط انداز میں بہتر ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
ستمبر میں امریکہ نے قطر کی ثالثی میں تہران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں جانب سے پانچ قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا اور واشنگٹن نے منجمد ایرانی اثاثوں کے چھ ارب ڈالر جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
SEE ALSO: ایران نے ایٹمی ہتھیار بنائے تو سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا: محمد بن سلمانتاہم، حماس کے حملوں کے بعد امریکہ نے ایران کے اثاثوں کو پھر منجمد کر دیا کیونکہ امریکہ نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
واشنگٹن میں "انٹرنیشنل کرائسز گروپ" کے ایران پروجیکٹ ڈائریکٹر علی ویز نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے معاہدے اور کشیدگی میں کمی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان اکتوبر کے آخر میں عمان میں براہ راست مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔
لیکن علی وزیر کے خیال میں یہ بات اب ایجنڈے پر نظر نہیں آ رہی اور شاید اس کے لیے کوئی سیاسی گنجائش بھی نہیں بچی ہے۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے "انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی" (آئی اے ای اے) میں برطانیہ کے سابق سفیر پیٹر جینکنز کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر مزید بات چیت کرنے کا امکان نہیں ہے۔
SEE ALSO: ایران نے زمین کے مدار میں اپنا امیجنگ سیٹلائٹ لانچ کر دیاان کے بقول اگر ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حماس کے حملوں کا الزام جزوی طور بھی پر ایران پر عائد کیا جاتا ہے تو یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ بائیڈن انتظامیہ خود کو عوام یا خاص طور پر کانگریس میں ری پبلیکنز اور اسرائیل کی لابی کرنے والی" ایپیک " جیسی تنظیم کے حملوں کا نشانہ بننے سے محفوظ رکھ سکے۔
خیال رہے کہ سال 2015 میں ایران اور بڑی طاقتوں میں جوہری معاہدہ طے پایا تھا جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں "فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز " کے تجزیہ کار بہنام بن طالبلو کا کہنا ہے کہ مغرب کو ایران کے جوہری خطرے کو تہران کی جانب سے حماس جیسی عسکریت پسند پراکسیز کی حمایت جیسے دیگر خدشات سے الگ تھلگ نہیں سمجھنا چاہیے ۔
"انٹرنیشنل کرائسز گروپ" کے ایران پروجیکٹ ڈائریکٹر علی ویز کہتے ہیں کہ ستمبر میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد، ایران نے کچھ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو روکنے پر عارضی طور پر اتفاق کیا تھا۔
SEE ALSO: ایران کا ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں؛ ابراہیم رئیسی کا یورینیم افزودگی کا دفاعانہوں نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں کمی کے معاہدے کے تحت ایران نے اضافی 60 فیصد افزودہ یورینیم جمع کرنا روک دیا ہے۔ اب یہ سلسلہ دونوں فریقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے تبدیل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورینیم کی 60 سے 90 فیصد تک افزودگی چند دنوں میں ہو سکتی ہے۔
ویز کے مطابق ایران کو ایک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے اعلیٰ افزودہ یورینیم میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت لگے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ لفظی طور پریہ ایک ٹک ٹک بم ہے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کسی نہ کسی طرح کے حل کی ضرورت ہے۔"
SEE ALSO: ایران کے ساتھ کوئی نیا جوہری معاہدہ زیر غور نہیں : بلنکندوسری طرف آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے حال ہی میں سی این بی سی کو بتایا تھا کہ انہیں اسرائیل حماس جنگ اور ایران کے جوہری پروگرام کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
گروسی نے 20 اکتوبر کو ایک انٹرویو میں کہا، "مجھے ان دونوں چیزوں کے درمیان کوئی تعلق دکھائی نہیں دے رہا۔
اسرائیل بارہا کہہ چکاہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔
خود اسرائیل کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، جب کہ وہ آئی اے ای اے کو اپنے جوہری مقامات کے معائنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اس نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
(وی او اے نیوز)