ایران نے جوہری ہتھیاروں کے قریب تر یورینیم ذخائرمیں نمایاں اضافہ کر لیا: اقوام متحدہ

فردو میں ایران کا یورینیم کی افزودگی کا پلانٹ۔فائل فوٹو

  • ایران نے یورینیم کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کر لیا ہے۔
  • ایران نے بین الاقوامی دباؤ کو نظرانداز کر کے یورینیم کی افزدوگی برقرار رکھی ہے اور اسے 60 فی صد کی سطح تک پہنچا دیا ہے۔
  • آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 26 اکتوبر کو 182 کلوگرام سے زیادہ 60 فی صد تک افزدوہ یورینیم موجود تھا۔
  • جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا ہے جس میں تہران نے اپنی افزودگی کی سطح کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
  • ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ایران نے اس سے قبل کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی دباؤ کو نظر انداز کر کے افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کر لیا ہے اور وہ جوہری ہتھیار کے لیے درکار افزودگی سے بہت قریب ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ میں، جسے خبررساں ادارے نے دیکھا ہے، بتایا گیا ہے کہ 26 اکتوبر تک ایران کے پاس 182.3 کلوگرام یورینیم موجود تھا جس کی افزودگی کی سطح 60 فی صد ہے۔ یہ مقدار اگست کی آخری رپورٹ سے 17.6 کلوگرام زیادہ ہے۔

جوہری ہتھیار کے لیے 90 فی صد تک افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے،جب کہ 60 فی صد افزدوگی کو جوہری سطح تک لےجانا تکنیکی طور پر زیادہ دور نہیں ہے۔

جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے (IAEA) کے مطابق نظریاتی طور پر 60 فی صد تک افزودہ 42 کلوگرام یورینیم کو مزید افزودہ کر کے ایک جوہری ہتھیار بنانا ممکن ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مہینوں میں غزہ جنگ کے پس منظر میں اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے کے خلاف میزائل حملے کیے ہیں۔

آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل گروسی اپنے تہران کے دورے میں ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے بہروز کمال وندی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ 13 نومبر 2024

ایران نے گزشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کے تہران کے دورے کے موقع پر اپنے یورینیم کے ذخائر کو 60 فی صد افزودگی تک نہ بڑھانے کی پیش کش کی تھی۔

آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایرانی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات میں یورینیم کے ذخائر کی 60 فی صد تک افزدوگی پر بات چیت ہوئی اور تکنیکی تصدیق کے پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کی جانب سے جاری کردہ اس تصویر میں رافیل گروسی کے ساتھ ایرانی جوہری ادارے کے بہروز کماوندی اور نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی کے ساتھ۔ 15 نومبر 2024

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گروسی کی ایران سے واپسی کے ایک روز کے بعد 16 نومبر کو معائنہ کاروں نے تصدیق کی کہ ایران نے اپنے زیر زمین جوہری مراکز فردو اور نطنز میں یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کرنے کا عمل کو روکنے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

یہ رپورٹ اس ہفتے ویانا میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے باقاعدہ اجلاس سے پہلے سامنے آئی ہے۔

مغرب کا ردعمل

ایک سینئر مغربی سفارت کار نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کی حمایت کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ کے اجلاس میں ایک قرارداد لا رہے ہیں جس میں ایران کی جانب سے تعاون میں عدم دلچسپی پر اسےسرزنش کی جائے گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کو واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم ایران کو جوابدہ بنانے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخائر جمع کر رہی ہے جس کا کوئی قابل اعتماد غیر فوجی مقصد نہیں ہے اور وہ آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی نہیں کر رہی۔

SEE ALSO: جوہری سمجھوتا اسرائیل کے وجود کے لیے باعثِ خطرہ: نیتن یاہو

ایک سینئر سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گروسی کے تہران کے دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایران نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی قراردادوں کے جواب میں اپنے جوہری پروگرام میں اضافہ ہی کیا ہے۔

جب کہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

ایران نے ستمبر 2023 میں آئی اے ای اے کے کچھ سینئر معائنہ کاروں پر پابندی لگا دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جون میں اپنے جوہری مراکز کی نگرانی کے لیے نصب جو کیمرے اور آلات ہٹائے تھے، انہیں دوبارہ نصب کرنے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

SEE ALSO: ایرانی سپریم لیڈر نے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہموار کر دیا

گزشتہ ہفتے ایران کے محمد اسلامی نے خبردار کیا تھا کہ اگر آئی اے ای اے کے آئندہ ہونے والے بورڈ کے اجلاس میں ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو تہران اس کا ردعمل دے گا۔ آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ ممالک ایران کے خلاف کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔

ایران کو 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے میں 3.67 فی صد تک یورینیم افزودہ کرنے، 300 کلوگرام تک یورینیم ذخیرہ کرنے اور بنیادی سطح کی سینٹری فیوج مشینیں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو سویلین مقاصد کے لیے تھی اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

تاہم ایران نے امریکہ کے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے ایک سال کے بعد آہستہ آہستہ پابندیوں کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا اور یورینیم کی افزودگی کو 60 فی صد تک پہنچا دیا۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)