جمعے کو ہونے والی ووٹنگ میں بھاری 'ٹرن آئوٹ' کے باعث الیکشن حکام نے ووٹنگ کا وقت کئی گھنٹے بڑھادیا ہے۔
واشنگٹن —
ایران میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے جاری پولنگ کے عمل میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ سے ووٹنگ کے وقت میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق جمعے کو ہونے والی ووٹنگ میں بھاری 'ٹرن آئوٹ' کے باعث حکام نے ووٹنگ کا وقت کئی گھنٹے بڑھادیا ہے۔
صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ابتدائی طور پر 600 سے زائد امیدواروں نے دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن ملک کے اعلٰی ترین فیصلہ ساز ادارے 'شوریٰ نگہبان' نے آٹھ اُمیدواروں کو انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا تھا۔
رواں ہفتے دو امیدواران کے دستبردار ہوجانے کے بعد جمعے کو ہونے والے انتخاب میں اب صرف چھ امیدوار میدان میں ہیں۔
انتخابی دوڑ میں شریک امیدواروں میں سے اکثریت سپریم رہنما خامنہ ای کے قریبی سمجھے جانے والے قدامت پسند رہنمائوں کی ہے جس میں سے کسی ایک کو ایرانی عوام موجودہ صدر احمدی نژاد کا جانشین منتخب کریں گے۔
صدر احمدی نژاد مسلسل تیسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے پر عائد آئینی پابندی کے باعث انتخاب میں شریک نہیں۔
سپریم رہنما خامنہ ای نے بھی جمعے کو دارالحکومت تہران میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انتخابی عمل پر امریکہ کی تنقید کو سختی سے مسترد کیا۔
انتخابات کے موقع پر ایران بھر میں سیکیورٹی سخت ہے اور ملک کی بیشتر سرحدیں سیل کردی گئی ہیں۔ پولیس نے سرکردہ حکومت مخالف سیاسی کارکنوں اور بعض صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے جب کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے نمائندوں کو انتخابات کی کوریج کے لیے ایرانی حکومت نے ویزے جاری نہیں کیے۔
ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں۔
بدھ کو ایک تقریب سے خطاب میں سپریم رہنما نے کہا کہ ایرانی عوام کی پولنگ میں بڑی تعداد میں شرکت سے دشمن "مایوس" ہوگا اور ، ان کے بقول، اس کے نتیجے میں ایران کو نئے راستے پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری معاملات پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی کو انتخابی دوڑ میں شریک دیگر امیدواران پر سبقت حاصل ہے۔
لیکن اعتدال پسند امیدوار اور انتخابی دوڑ میں شریک واحد عالمِ دین حسن روحانی کی حمایت اور مقبولیت میں بھی حالیہ چند روز کے دوران میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انتخابی قوانین کے تحت صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے امیدوار کو 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔
اگر پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار اتنے ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ایک ہفتے بعد ان دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ پولنگ ہوگی جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں گے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق جمعے کو ہونے والی ووٹنگ میں بھاری 'ٹرن آئوٹ' کے باعث حکام نے ووٹنگ کا وقت کئی گھنٹے بڑھادیا ہے۔
صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ابتدائی طور پر 600 سے زائد امیدواروں نے دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن ملک کے اعلٰی ترین فیصلہ ساز ادارے 'شوریٰ نگہبان' نے آٹھ اُمیدواروں کو انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا تھا۔
رواں ہفتے دو امیدواران کے دستبردار ہوجانے کے بعد جمعے کو ہونے والے انتخاب میں اب صرف چھ امیدوار میدان میں ہیں۔
انتخابی دوڑ میں شریک امیدواروں میں سے اکثریت سپریم رہنما خامنہ ای کے قریبی سمجھے جانے والے قدامت پسند رہنمائوں کی ہے جس میں سے کسی ایک کو ایرانی عوام موجودہ صدر احمدی نژاد کا جانشین منتخب کریں گے۔
صدر احمدی نژاد مسلسل تیسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے پر عائد آئینی پابندی کے باعث انتخاب میں شریک نہیں۔
سپریم رہنما خامنہ ای نے بھی جمعے کو دارالحکومت تہران میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انتخابی عمل پر امریکہ کی تنقید کو سختی سے مسترد کیا۔
انتخابات کے موقع پر ایران بھر میں سیکیورٹی سخت ہے اور ملک کی بیشتر سرحدیں سیل کردی گئی ہیں۔ پولیس نے سرکردہ حکومت مخالف سیاسی کارکنوں اور بعض صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے جب کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے نمائندوں کو انتخابات کی کوریج کے لیے ایرانی حکومت نے ویزے جاری نہیں کیے۔
ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں۔
بدھ کو ایک تقریب سے خطاب میں سپریم رہنما نے کہا کہ ایرانی عوام کی پولنگ میں بڑی تعداد میں شرکت سے دشمن "مایوس" ہوگا اور ، ان کے بقول، اس کے نتیجے میں ایران کو نئے راستے پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری معاملات پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی کو انتخابی دوڑ میں شریک دیگر امیدواران پر سبقت حاصل ہے۔
لیکن اعتدال پسند امیدوار اور انتخابی دوڑ میں شریک واحد عالمِ دین حسن روحانی کی حمایت اور مقبولیت میں بھی حالیہ چند روز کے دوران میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انتخابی قوانین کے تحت صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے امیدوار کو 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔
اگر پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار اتنے ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ایک ہفتے بعد ان دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ پولنگ ہوگی جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں گے۔