ایران کے نیوکلیئر عزائم کے بارے میں بہت سی عالمی طاقتوں میں گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ حال ہی میں وی آنا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایک میٹنگ کے دوران امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ایران کو اپنے نیوکلیئر عزائم کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔ یہ بیان ایران کے اس اعلان کے بعد جاری کیا گیا کہ وہ اپنے بیس فیصد افژودہ یورینیم کی پیداوار تین گنی کر دے گا۔ عالمی طاقتوں کو ڈر ہے کہ ایران نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری میں مصروف ہے ۔
برطانیہ میں قائم عالمی سکیورٹی کے ریسرچ گروپ، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے Mark Firtzpatrick نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ایران نے بدھ کے روز جو اعلان کیا ہے وہ پریشان کن ہے ۔’’ایران کی طرف سے یورینیم کی افژودگی کچھ برسوں سے پریشان کن رہی ہے اور اس کا تازہ ترین اعلان کہ وہ بیس فیصد افژودگی کے یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کر دے گا، جس کا اس کے پاس کوئی سویلین استعمال نہیں ہے، اور جو ہتھیار تیار کرنے کے مشینوں میں استعمال ہونے والے یورینیم کے بہت قریب ہے ، بہت زیادہ تشویش کی بات ہے۔‘‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کے افژودگی کے پروگرام کا مقصد توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔ یورینیم کی افژودگی اگر پانچ فیصد سے کم ہو، تو اسے بجلی پیدا کرنے کے لیئے ری ایکٹر میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ یورنیم کو 20 فیصد کی حد تک افژودہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اسےکینسر کے علاج کے لیئے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کو چلانے کے لیئے ایندھن کی تیاری میں استعمال کر سکے ۔ لیکن اگر یورینیم کو 90 فیصد حد تک افژودہ کر لیا جائے، تو اسے نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اور عالمی طاقتوں کی تشویش اس امکان کے بارے میں ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بار بار ایران سے کہا ہے کہ جب تک بین الاقوامی برادری یورینیم کی افژودگی کی تصدیق نہ کرلے اور یہ اطمینان نہ کر لے کہ اسے فوجی مقاصد کے لیئے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، وہ اپنا یورینیم کی افژودگی کا پروگرام بند کر دے۔Fitzpatrick بتاتے ہیں کہ اب تک تصدیق کیوں نہیں ہو سکی ہے۔’’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس لیئے تصدیق نہیں کر سکی ہے کیوں کہ ایران نے پوری طرح تعاون نہیں کیا ہے، اس نےانسپکٹروں کو پوری رسائی فراہم نہیں کی ہے، اور اپنی تنصیبات کے ڈیزائن کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ جب کوئی ملک اپنی ذمہ داریوں کی اس طرح خلاف ورزی کرتا ہے، تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ان پر عمل درآمد کے لیئے اپنا رول ادا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ایک حالیہ رپورٹ میں ، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ ممکن ہے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا ایک فوجی پہلو بھی ہو۔ آئی اے ای اے میں ایرانی سفیر نے کہا کہ یہ رپورٹ نہ تو متوازن ہے اور نہ حقائق پر مبنی ہے۔ وی آنا میں گذشتہ ہفتے کی میٹنگ کے بعد، کوئی نئے اقدامات زیرِ غور نہیں ہیں لیکن صدر اوباما نے کہا ہے کی ایران پر مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
رچرڈ ڈیلٹن جو 2003 سے 2006 تک ایران میں برطانیہ کےسفیر تھے ، کہتےہیں کہ ایران نے 20 فیصد خالص یورینیم گذشتہ سال افژودہ کرنی شروع کی تھی۔ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے، اسے وہ سامان نہیں مل رہا ہے جس کی یورینیم کو مکمل طور سے افژودہ کرنے کے لیئے ضرورت ہے ۔ سخت پالیسی اختیار کرنے سے ایرانی قیادت کو عوامی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف، امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کو کوئی کارروائی کرنے کے لیئے جواز چاہیئے۔
ڈیلٹن کہتے ہیں’’بڑی طاقتیں مسلسل یہ کوشش کر رہی ہیں کہ مزید بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کے لیئے کیس تیار کریں کیوں کہ وہ پابندیوں کی ایسی پالیسی میں الجھ گئی ہیں جو مؤثر ثابت نہیں ہو ئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ پابندیاں اسی صورت میں کارگر ہو سکتی ہیں جب ایران پر مزید پابندیوں کا دباؤ ڈالا جائے۔ اور اس کے لیئے ضروری ہے کہ جب کبھی کوئی نیا اعلان ہو، تو خطرے میں اضافہ ہو جائے۔‘‘
لیکن ڈیلٹن کہتے ہیں کہ مزید پابندیوں سے کام نہیں چلے گا۔ اس بات پر اصرار کرنے کی پالیسی کہ ایران اپنی یورینیم افژودہ کرنے کا پروگرام معطل کردے، ناکام ہو گئی ہے، اور ایک زیادہ لچکدار پالیسی اختیار کرنا ضرور ی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی صورت میں ایک مؤثر ادارہ موجود ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیئے کہ ایران کی نیوکلیئر سرگرمیاں پُر امن ہوں، ہمیں اس پر بعض موزوں حدود قائم کرنی ہوں گی اور ایران جو کچھ کرے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی طرف سے اس کی جانچ اور نگرانی کو یقینی بنانا ہوگا۔ بین الاقوامی مذاکرات کا یہی مقصد ہونا چاہیئے جو ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔‘‘
گذشتہ بدھ کے روز کے اعلان میں ایران نے کہا کہ اعلیٰ گریڈ کا یورینیم Fordo میں تیار کیا جائے گا ۔ یہ پلانٹ تہران سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ Fordo کی موجودگی کو کافی عرصے تک خفیہ رکھا گیا۔ آخر ستمبر 2009 میں مغربی انٹیلی جنس نے اس کا پتہ چلا لیا۔